Surah baqarah Ayat 184 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
[ البقرة: 184]
(روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں، وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔
( 2 ) يُطِيقُونَهُ کا ترجمہ يتَجَشَّمُونَهُ ( نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں ) کیا گیا ہے ( یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے ) یعنی جو شخص زیادہ بڑھاپے یا ایسی بیماری کی وجہ سے، جس سے شفایابی کی امید نہ ہو، روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے، وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے، لیکن جمہور مفسرین نے اس کا ترجمہ ( طاقت رکھتے ) ہیں ہی کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دے دیا کریں۔ لیکن بعد میں «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» کے ذریعے اسے منسوخ کرکے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا، تاہم زیادہ بوڑھے، دائمی مریض کے لئے اب بھی یہی حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں اور ” حَامِلَةٌ “ ( حمل والی ) اور ” مُرْضِعَةٌ “ ( دودھ پلانے والی ) عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں اور بعد میں روزے کی قضا دیں ( تحفة الأحوذي شرح ترمذي )
( 3 ) جو خوشی سے ایک مسکین کی بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
روداد روزہ اور صلوۃ اللہ تعالیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہوجاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہوجاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) 5۔ المائدة:48) یعنی ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کردیتے ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت معاذ ؓ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح ؑ کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور ﷺ کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کرلیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کرلیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور ﷺ نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر " قدنری " والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہوجاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت بلال ؓ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چناچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور ﷺ نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہوچکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ ؓ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چناچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت ﷺ کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی ﷺ مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :183) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت ( فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) 2۔ البقرۃ :185) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور ﷺ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر ؓ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کرلی اور حضور کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2۔ البقرۃ :187) سے ( ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ) 2۔ البقرۃ :187) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی یہ مروی ہے۔ آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ) 2۔ البقرۃ :184) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ ، کہتے ہیں عطار ؒ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کردیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہوگا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی ؒ کا یہ ہے کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری ؒ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک ؓ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے، مسند ابو لیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس ؓ روزہ رکھنے سے عاجز ہوگئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کرلیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے فلحمد للہ ( بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔ )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 184 اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط مَعْدُوْدٰت جمع قلت ہے ‘ جو تین سے نو تک کے لیے آتی ہے۔ یہ گویا اس کا ثبوت ہے کہ یہاں مہینے بھر کے روزے مراد نہیں ہیں۔ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط ان آیات کی تفسیر میں ‘ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے کے بعد جو رائے قائم کی ہے َ میں صرف وہی بیان کر رہا ہوں کہ اس وقت امام رازی رح کے بقول یہ فرضیتّ علی التّعیین نہیں تھی بلکہ علی التّخییر تھی۔ یعنی روزہ فرض تو کیا گیا ہے لیکن اس کا بدل بھی دیا جا رہا ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کی استطاعت کے باوجود نہیں رکھنا چاہتے تو ایک مسکین کو کھانا کھلا دو۔ چونکہ روزے کے وہ پہلے سے عادی نہیں تھے ‘ لہٰذا انہیں تدریجاً اس کا خوگر بنایا جا رہا تھا۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ ط۔ اگر کوئی روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا۔وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہاں بھی ایک طرح کی رعایت کا انداز ہے۔ یہ دو آیات ہیں جن میں میرے نزدیک روزے کا پہلا حکم دیا گیا ‘ جس کے تحت رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان روزوں کا حکم رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو اپنے طور پر دیا ہو اور بعد میں ان آیات نے اس کی توثیق کردی ہو۔اب وہ آیات آرہی ہیں جو خاص رمضان کے روزے سے متعلق ہیں۔ ان میں سے دو آیات میں روزے کی حکمت اور غرض وغایت بیان کی گئی ہے۔ پھر ایک طویل آیت روزہ کے احکام پر مشتمل ہے اور آخر میں ایک آیت گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
أياما معدودات فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم إن كنتم تعلمون
سورة: البقرة - آية: ( 184 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 28 )Surah baqarah Ayat 184 meaning in urdu
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (بندو) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان
- اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ (قبروں
- (پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن
- لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے ان کو
- اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی تو (ان کی شکل بگڑ
- نوح نے کہا کہ پروردگار میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا
- وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں
- اور ہمارا لشکر غالب رہے گا
- انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے
- اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers