Surah Al Araaf Ayat 189 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾
[ الأعراف: 189]
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ابتدا یعنی حضرت آدم ( عليه السلام ) سے ۔ اسی لیے ان کو انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔
( 2 ) اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم ( عليه السلام ) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم ( عليه السلام ) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۂ کی طرف راجع ہے، واضح ہے ( مزید دیکھئے سورہ نساء آیت 1، کا حاشیہ )
( 3 ) یعنی اس سے اطمینان وسکون حاصل کرے۔ اس لیے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦٓ أَنۡ خَلَقَ لَكُم مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ أَزۡوَٰجٗا لِّتَسۡكُنُوٓاْ إِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُم مَّوَدَّةٗ وَرَحۡمَةً» [ الروم: 21 ].
” اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے ( یا تمہاری جنس ہی میں سے ) جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان اس نے پیار ومحبت رکھ دی “۔ یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے جو جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب وانس حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔
( 4 ) یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ ” تَغَشَّاهَا “ کے معنی بیوی سے ہم بستری کرنا ہیں۔ یعنی وطی کرنے کے لیے ڈھانپا۔
( 5 ) یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتیٰ کہ نطفے سے عَلَقَةٌ اور عَلَقَةٌ سے مُضْغَةٌ بننے تک، حمل خفیف ہی رہتا ہے، محسوس بھی نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔
( 6 ) بوجھل ہو جانے سے مراد، جب بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں ( بالخصوص جب عورت کو اٹھراہ کی بیماری ہو ) تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چنانچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم ؑ سے ہی پیدا کیا۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13 ) 49۔ الحجرات:13) لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک وسرے کو پہچانتے رہو۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے۔ سورة نساء کے شروع میں ہے اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں چناچہ ایک اور آیت میں ہے ( لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمتہ ) لوگو یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنادیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں باہم محبت و الفت پیدا کردی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کردیتا ہے۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں۔ عورت مرد کے ملنے سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو۔ کچھ وقت یونہی گذر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہوجاتا ہے بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گذاری کریں گے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہوجائے۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا ان شاء اللہ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سیکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چناچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا۔ امام ترمذی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے، میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضرت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا۔ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسن سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے۔ چناچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسن تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب و ہب وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے انشاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہوگا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم۔ اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے۔ ابن عباس کہتے ہیں حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبداللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہوجاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چناچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بجے اس سے پہلے مرچکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے ؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مرجائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو انسان ہوگا صحیح سالم ہوگا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آگئے اور عبدالحارث نام رکھا۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا اب یا تم میری اطاعت کرو۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہرچند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چناچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ ابن عباس سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی ہاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے۔ جن کی بابت رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی۔ ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے۔ ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو۔ ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور ﷺ اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدم و حوا کا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند وبالا ہے ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت ( ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیع ) میں ہے یعنی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں، واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 189 ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا ج۔ اس نکتے کی وضاحت سورة البقرة کی آیت 187 وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات میں جہاں اولاد کا معاملہ ہے وہاں تسکین اور سکون کا پہلو بھی ہے۔فَلَمَّا تَغَشّٰٹہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج۔ ابتدا میں حمل اتنا خفیف ہوتا ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کوئی حمل ٹھہر گیا ہے۔
هو الذي خلقكم من نفس واحدة وجعل منها زوجها ليسكن إليها فلما تغشاها حملت حملا خفيفا فمرت به فلما أثقلت دعوا الله ربهما لئن آتيتنا صالحا لنكونن من الشاكرين
سورة: الأعراف - آية: ( 189 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 175 )Surah Al Araaf Ayat 189 meaning in urdu
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- مگر جو ظالم ہیں بےسمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں تو جس کو خدا
- ہم عنقریب اس کو سقر میں داخل کریں گے
- انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس
- اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ
- روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا کردیا گیا ہے وہ
- ان کے لیے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر
- اے آدم کی اولاد ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو
- اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی
- کیا جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں ان کی اس کو خبر نہیں پہنچی
- اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers