Surah yusuf Ayat 19 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ﴾
[ يوسف: 19]
(اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور انہوں نے (پانی کے لیے) اپنا سقا بھیجا۔ اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا (تو یوسف اس سے لٹک گئے) وہ بولا زہے قسمت یہ تو (نہایت حسین) لڑکا ہے۔ اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے خدا کو سب معلوم تھا
Surah yusuf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) وارد اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلے کے لئے پانی وغیرہ انتظام کرنے کی غرض سے قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ دیکھ کر قافلے کو ٹھیرایا جا سکے یہ وراد ( جب کنویں پر آیا اور اپنا ڈول نیچے لٹکایا تو حضرت یوسف (عليه السلام ) نے اس کی رسی پکڑ لی، وارد نے ایک خوش شکل بچہ دیکھا تو اسے اوپر کھنچ لیا اور بڑا خوش ہوا۔
( 2 ) بِضَاعَةً سامان تجارت کو کہتے ہیں أَسَرُّوهُ کا فاعل کون ہے؟ یعنی یوسف کو سامان تجارت سمجھ کر چھپانے والا کون ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے برادران یوسف ( عليه السلام ) کو فاعل قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب ڈول کے ساتھ یوسف ( عليه السلام ) بھی کنویں سے باہر نکل آئے تو وہاں یہ بھائی بھی موجود تھے، تاہم انہوں نے اصل حقیقت کو چھپائے رکھا، یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا بھائی ہے اور حضرت یوسف ( عليه السلام ) نے بھی قتل کے اندیشے سے اپنا بھائی ہونا ظاہر نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے انہیں فروختنی قرار دیا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر لایا۔ چنانچہ اس وارد نے اہل قافلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر یہ بات سیاق سے میل کھاتی نظر نہیں آتی۔ ان کے برخلاف امام شوکانی نے أَسَرُّوهُ کا فاعل وارد اور اس کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے کہ انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بچہ کنویں سے نکلا ہے کیونکہ اس طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت میں شریک ہو جاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر یہ بتلایا کہ کنویں کے مالکوں نے یہ بچہ ان کے سپرد کیا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بیچ دیں۔ مگر اقرب ترین بات یہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چھپا لیا کہ کہیں اس کے عزیز واقارب اس کی تلاش میں نہ آ پہنچیں۔ اور یوں لینے کے دینے پڑ جائیں کیونکہ بچہ ہونا اور کنویں میں پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کہیں قریب ہی کا رہنے والا ہے اور کھیلتے کودتے آ گرا ہے۔
( 3 ) یعنی یوسف ( عليه السلام ) کے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الہی بروئے کار آئے۔ علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقیناً ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انہیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انہیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف ( عليه السلام ) کو مہت دی تھی۔ اور پھر بالآخر میں نے یوسف ( عليه السلام ) کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز ولاچار کر کے اس کے دربار میں کھڑا کر دیا اے پیغمبر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور سرداران قریش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کنویں سے بازار مصر تک بھائی تو حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گذر گئے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے ؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لے بھیجا۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا، حضرت یوسف ؑ نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیارہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آگیا۔ دوسری قرأت اس کی یا بشرای بھی ہے۔ سدی کہتے ہیں بشریٰ سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے۔ لیکن سدی کا یہ قول غریب ہے۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہوسکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یائے اضافت ساقط ہے۔ اسی کی تائید قرآت یا بشرای سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے یا نفس اصبری اور یا غلام اقبل اضافت کے حرف کو ساقط کر کے۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپالیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور حضرت یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف ؑ کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بیخبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں آنحضرت ﷺ کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کردوں لیکن میرے کام حکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بےفکر رہو، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کردوں گا۔ جیسے کہ یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا۔ یہاں تک کا آخر انجام حضرت یوسف کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کردیا تھا۔ پس اگر انہیں اس کی بےرغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے ؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا حضرت یوسف کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے۔ حضرت یوسف ؑ نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن ؑ تھا۔ پس آپ تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے ؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں۔ حضرت مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لئے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کو بازار میں لیجا کر بیچنے لگے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہوجائے گا۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 19 وَجَاۗءَتْ سَيَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ جب قافلے چلتے تھے تو ایک آدمی قافلے کے آگے آگے چلتا تھا۔ وہ قافلے کے پڑاؤ کے لیے جگہ کا انتخاب کرتا اور پانی وغیرہ کے انتظام کا جائزہ لیتا۔ قافلے والوں نے اس ڈیوٹی پر مامور شخص کو بھیجا کہ وہ جا کر پانی کا کھوج لگائے۔ اس شخص نے باؤلی دیکھی تو پانی نکالنے کی تدبیر کرنے لگا۔فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ حضرت یوسف نے اس کے ڈول کو پکڑ لیا۔ اس نے جب ڈول کھینچا اور حضرت یوسف کو دیکھا تو :قَالَ يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ ۭ وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً کہ بہت خوبصورت لڑکا ہے بیچیں گے تو اچھے دام ملیں گے۔
وجاءت سيارة فأرسلوا واردهم فأدلى دلوه قال يابشرى هذا غلام وأسروه بضاعة والله عليم بما يعملون
سورة: يوسف - آية: ( 19 ) - جزء: ( 12 ) - صفحة: ( 237 )Surah yusuf Ayat 19 meaning in urdu
ادھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا سقے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اٹھا "مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے" ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ہم تو تھوڑے دنوں عذاب ٹال دیتے ہیں (مگر) تم پھر کفر کرنے لگتے ہو
- پھر اس کے سر پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دو (کہ عذاب پر) عذاب (ہو)
- تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے
- ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ہُدہُد آ موجود ہوا اور کہنے لگا کہ
- کیا اُن لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل
- ہم نے فرمایا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو یہ
- اور کہیں گے کیا سبب ہے کہ (یہاں) ہم ان شخصوں کو نہیں دیکھتے جن
- کہ یہ کلام (حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے
- جو چاہتا ہے کر دیتا ہے
- اور (دوزخ کی) آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے
Quran surahs in English :
Download surah yusuf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah yusuf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter yusuf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers