Surah Qaaf Ayat 19 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾
[ ق: 19]
اور موت کی بےہوشی حقیقت کھولنے کو طاری ہوگئی۔ (اے انسان) یہی (وہ حالت) ہے جس سے تو بھاگتا تھا
Surah Qaaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) دوسرے معنی اس کے ہیں، موت کی سختی حق کےساتھ آئے گی، یعنی موت کے وقت، حق واضح اور ان وعدوں کی صداقت ظاہر ہو جاتی ہے جو قیامت اور جنت کے بارے میں انبیا علیہم السلام کرتے رہے ہیں۔
( 2 ) تَحِيدُ، تَمِيلُ عَنْهُ وَتَفِرُّ، تو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آجائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ ( وانا ) نہیں کہا بلکہ ( ونحن ) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت ( ونحن اقرب الیہ منکم ) الخ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15۔ الحجر:9) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10 ۙ ) 82۔ الإنفطار :10) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب و عذاب لکھ لیا کرتے ہیں۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے۔ جب بندے سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کرلی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ( ابن ابی حاتم ) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13 ) 17۔ الإسراء :13) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنادیا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39۔ ) 13۔ الرعد:39) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چناچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہوجائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پاسکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کرسکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کرسکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19 ) 50۔ ق :19) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کردیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ ( ما ) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہوگئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مرگئی۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کرسکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ ﷺ ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ01703 ) 3۔ آل عمران:173) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہوگا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہوگا۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہوگا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہوگئی۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہوجائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38 ) 19۔ مریم :38) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32۔ السجدة :12) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 19{ وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط } ” اور بالآخر موت کی بےہوشی کا وقت آن پہنچا ہے حق کے ساتھ۔ “ موت کا آنا تو قطعی اور برحق ہے ‘ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ کے منکر تو بہت ہیں لیکن موت کا منکر کوئی نہیں۔ { ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ۔ } ” یہی ہے نا وہ چیز جس سے تو بھاگا کرتا تھا ! “ اس بات کا انسان کی نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہر انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے کہ موت کو برحق جانتے ہوئے بھی وہ اس کے تصور کو حتی الوسع اپنے ذہن سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وقتی طور پر اگر کسی عزیز کی موت اور تجہیز و تکفین کے موقع پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا بھی ہے تو انسان فوری طور پر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں خود کو مصروف کرلیتا ہے۔
Surah Qaaf Ayat 19 meaning in urdu
پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعقوب نے) کہا کہ میں اس کے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا
- (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے
- (اور) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے لیے باغات ہیں
- اس سبب سے کہ مال اور بیٹے رکھتا ہے
- تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام
- یہ (ہمارا حکم ہے) جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی
- جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے
- کیا ان کو ان لوگوں (کے حالات) کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے
- نوح نے کہا کہ پروردگار میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا
- پوچھو کہ تم کو آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟ کہو کہ خدا
Quran surahs in English :
Download surah Qaaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Qaaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qaaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers