Surah quraish Ayat 2 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ﴾
[ قريش: 2]
(یعنی) ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب
Surah quraish Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) إِيلافٌ کے معنی ہیں، مانوس اور عادی ہونا، یعنی اس کا کام سے کلفت اور نفرت کا دور ہو جانا۔ قریش کی گزر ان کا ذریعہ تجارت تھی۔ سال میں دو مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ باہر جاتا اور وہاں سے اشیاء تجارت لاتا۔ سردیوں میں یمن، جو گرم علاقہ تھا اور گرمیوں میں شام کی طرف جو ٹھنڈا تھا۔ خانہ کعبہ کے خدمت گزار ہونے کی وجہ سے تمام اہل عرب ان کی عزت کرتے تھے، اس لئے ان کے قافلے بلا روک ٹوک سفر کرتے، اللہ تعالیٰ اس سورت میں قریش کو بتلا رہا ہے کہ تم جو گرمی، سردی میں دو سفر کرتے ہو تو ہمارے اس احسان کی وجہ سے کہ ہم نے تمہیں مکے میں امن عطا کیا ہے اور اہل عرب میں معزز بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو تمہارا سفر ممکن نہ ہوتا۔ اور اصحاب الفیل کو بھی ہم نے اسی لئے تباہ کیا ہے کہ تمہاری عزت بھی برقرار رہے اور تمہارے سفروں کا سلسلہ بھی، جس کے تم خوگر ہو، قائم رہے، اگر ابرہہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتا تو تمہاری عزت وسیادت بھی ختم ہو جاتی اور سلسلہ سفر بھی منقطع ہو جاتا۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ صرف اسی بیت اللہ کے رب کی عبادت کرو۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
امن وامان کی ضمانت :موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورة فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کرسکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن وامان سے سفر طے کرلیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنادیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ تو گویا یوں فرمایا جارہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36 ) 13۔ الرعد:36) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا نا ہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن وامان سے رہے گا، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ01102 ) 16۔ النحل:112) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریشیو ! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ۔ الحمد اللہ سورة قریش کی تفسیر ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 2{ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ۔ } ” یعنی سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے ان کو مانوس رکھنے کی وجہ سے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے قریش کے دلوں میں سردی اور گرمی کے تجارتی سفروں کی الفت و محبت پیدا کردی۔ اِیْلاف : اَلِفَ یَأْلَفُ اَلْفًا سے باب افعال کا مصدر ہے ‘ یعنی مانوس کرنا اور خوگر بنانا۔ اردو میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ سورة قریش کی پہلی دو آیات میں قریش کی اس اجارہ داری کی طرف اشارہ ہے جو حضور ﷺ کی پیدائش سے قبل زمانے میں انہیں مشرق اور مغرب کی تجارت پر حاصل تھی۔ اس زمانے میں مشرق بعید کے ممالک ہندوستان ‘ جاوا ‘ ملایا ‘ سماٹرا ‘ چین وغیرہ سے بحر ہند کے راستے جو سامانِ تجارت آتا تھا وہ یمن کے ساحل پر اترتا تھا۔ دوسری طرف یورپ سے آنے والے جہاز شام اور فلسطین کے ساحل پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اس کے بعد یمن سے سامانِ تجارت کو شام پہنچانے اور ادھر کا سامان یمن پہنچانے کے لیے خشکی کا راستہ استعمال ہوتا تھا۔ چناچہ یمن اور شام کے درمیان اس راستے کی حیثیت اس زمانے میں گویا بین الاقوامی تجارتی شاہراہ کی سی تھی۔ ظاہر ہے یورپ کو انڈیا سے ملانے والا سمندری راستہ around the cape of good hope تو واسکوڈے گا ما نے صدیوں بعد 1498 ء میں دریافت کیا تھا ‘ جبکہ بحیرئہ احمر کو بحر روم سے ملانے والی نہر سویز 1869 ء میں بنی تھی۔ حضور ﷺ کی ولادت سے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک اس تجارتی شاہراہ پر قوم سبا کی اجارہ داری تھی۔ لیکن جب ” سد مآرب “ ٹوٹنے کی وجہ سے اس علاقے میں سیلاب آیا اور اس سیلاب کی وجہ سے اس قوم کا شیرازہ بکھر گیا تو یہ شاہراہ کلی طور پر قریش مکہ کے قبضے میں چلی گئی۔ قریش مکہ چونکہ کعبہ کے متولی تھے اس لیے پورے عرب میں انہیں عزت و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں جہاں کوئی بھی تجارتی قافلہ لٹیروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھا وہاں قریش کے قافلوں کو پورے عرب میں کوئی میلی نظر سے بھی نہیں دیکھتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عرب کے تمام قبائل نے اپنے اپنے بت خانہ کعبہ میں نصب کر رکھے تھے۔ گویا ہر قبیلے کا ” خدا “ قریش کی مہربانی سے ہی خانہ کعبہ میں قیام پذیر تھا ‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریش کے پاس یرغمال تھا۔ اس لیے عرب کا کوئی قبیلہ بھی ان کے قافلوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ چناچہ قریش کے قافلے سارا سال بلاخوف و خطر یمن سے شام اور شام سے یمن کے راستے پر رواں دواں رہتے تھے۔ گرمیوں کے موسم میں وہ لوگ شام و فلسطین کے سرد علاقوں جبکہ سردیوں میں یمن کے گرم علاقے کا سفر اختیار کرتے تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں ان کے اسی تجارتی سفر کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر مکمل اجارہ داری ‘ تجارتی قافلوں کے ہمہ وقت تحفظ کی یقینی ضمانت اور موسموں کی موافقت اور مطابقت سے سرد و گرم علاقوں کے سفر کی سہولت ‘ یہ ان لوگوں کے لیے ایسی نعمتیں تھیں جس پر وہ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرتے کم تھا۔ اس لیے ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
Surah quraish Ayat 2 meaning in urdu
(یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفروں سے مانوس
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- دیکھو یہ خدا پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہ صریح کافی ہے
- خدا مومنوں (کے دلوں) کو (صحیح اور) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی
- گویا کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار
- تو (اے محمدﷺ) اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہنا اور جیسا تم کو
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- اور گنڈوں پر (پڑھ پڑھ کر) پھونکنے والیوں کی برائی سے
- اور ان کو ایسے حالات (سابقین) پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے
- اور تم تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہو
- اور (یہ) خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم
- پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار
Quran surahs in English :
Download surah quraish with the voice of the most famous Quran reciters :
surah quraish mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter quraish Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers