Surah baqarah Ayat 20 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
[ البقرة: 20]
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے۔ جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر الله چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کر دیتا ہے۔ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ ریب وشک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل ریب وتردد میں اس بارش کی طرح ہیں جو اندھیروں ( شکوک، کفر اور نفاق ) میں اترتی ہے، گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں، حتیٰ کہ خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف ودہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا، کیوں کہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں، لیکن پھر جب اسلام یا مسلمانوں پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران وسرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ( ابن کثیر ) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق ( اسلام ) سے محروم رہتا ہے۔
( 2 ) اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منافقین کی ایک اور پہچان یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لئے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑجاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے۔ ظلمات سے مراد شک، کفر و نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت ( يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ) 63۔ المنافقون :4) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمام میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پالیں تو یقینا اس میں سمٹ کر گھس جائیں۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں، یہ بچ نہیں سکتے۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت ( هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ 17ۙ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ 18ۭ ) 85۔ البروج:17) یعنی کیا تمہیں لشکر کی۔ فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کردیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کردیں گی جب ان پر اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہوجاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ) 22۔ الحج:11) یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہوجائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھرگئے۔ حضرت ابن عباسیہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم۔ روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بےنصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت ( يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ) 57۔ الحدید :13) یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو ! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ) 57۔ الحدید :12) یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہوگا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہوگا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔ احادیث میں تذکرئہ نور٭٭ نبی ﷺ فرماتے ہیں " بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہوگی " ( ابن جریر ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں " ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا، کسی کو قد آدم جتنا، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو، کبھی بجھ جاتا ہو، کبھی روشن ہوجاتا ہو " ( ابن ابی حاتم ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں " انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہوگا، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہوگا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہوگا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا " ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں " کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت ( رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ) 66۔ التحريم:8) یا رب ہمارے نور کو پورا کر " ( ابن ابی حاتم ) ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سورة نور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو۔ چناچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد، بس روشنی پر روشنی، نور پر نور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا۔ ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لئے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے۔ جیسے سورة حج کے شروع میں ہے آیت ( ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ) الخ بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ ) 22۔ الحج:3) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ سورة واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورة انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ " تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آجاتا ہے۔ اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے۔ یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے۔ قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ) 76۔ الإنسان:24) یا لفظ او اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے۔ قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن او ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے، ان کے احوال وصفات طرح طرح کے ہیں۔ جیسے کہ سورة برات میں ومنھم ومنھم ومنھم کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ جیسے کہ سورة نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد۔ فرمایا آیت ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ) 24۔ النور:39) پھر فرمایا آیت ( اوکظلمات ) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 20 یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ط کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ ق جونہی انہیں ذرا روشنی محسوس ہوتی ہے اور دائیں بائیں کچھ نظر آتا ہے تو کچھ دور چل لیتے ہیں۔وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط یہ ایک نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک طرف بارش ہو رہی ہے۔ یعنی قرآن مجید آسمان سے نازل ہو رہا ہے۔ بارش کو قرآن مجید ” مَاءً مُّبَارَکاً “ قرار دیتا ہے اور یہ خود ” کِتَابٌ مُّبَارَکٌ “ ہے۔ لیکن یہ کہ اس کے ساتھ کڑکے ہیں ‘ گرج ہے ‘ کفر سے مقابلہ ہے ‘ کفر کی طرف سے دھمکیاں ہیں ‘ اندیشے اور خطرات ہیں ‘ امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔ چناچہ منافقین کا معاملہ یہ ہے کہ ذرا کہیں حالات کچھ بہتر ہوئے ‘ کچھ breething space ملی تو مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھوڑا سا چل لیے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ جب وہ دیکھتے کہ حالات کچھ پرسکون ہیں ‘ کسی جنگ کے لیے بلایا نہیں جا رہا ہے تو بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے اور اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ‘ لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آتی ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ ط لیکن اللہ کا قانون یہی ہے کہ وہ فوری گرفت نہیں کرتا۔ اس نے انسان کو ارادے اور عمل کی آزادی دی ہے۔ تم اگر مؤمن صادق بن کر رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس روش کو تمہارے لیے آسان کر دے گا۔ اور اگر تم نے اپنے تعصبّ یا تکبرّ کی وجہ سے کفر کا راستہ اختیار کیا تو اللہ اسی کو تمہارے لیے کھول دے گا۔ اور اگر تم بیچ میں لٹکنا چاہتے ہو لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط تو لٹکتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو جبراً حق پر لائے گا اور نہ ہی کسی کو جبراً باطل کی راہ پر لے کر جائے گا۔ اس لیے کہ اگر جبر کا معاملہ ہو تو پھر امتحان کیسا ؟ پھر تو جزا و سزا کا تصور غیر منطقی اور غیر معقول ٹھہرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ سورة البقرة کے یہ ابتدائی دو ‘ رکوع اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں انسانی شخصیتوں کی تین گروہوں میں تقسیم کردی گئی ہے ‘ اور تأویل عام ذہن میں رکھیے کہ جب بھی کوئی دعوت حق اٹھے گی ‘ اگر وہ واقعتا کل کی کل حق کی دعوت ہو اور اس میں انقلابی رنگ ہو کہ باطل سے پنجہ آزمائی کر کے اسے نیچا دکھانا ہے اور حق کو غالب کرنا ہے ‘ تو یہ تین قسم کے افراد لازماً وجود میں آجائیں گے۔ ان کو پہچاننا اور ان کے کردار کے پیچھے جو اصل پس منظر ہے اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔
يكاد البرق يخطف أبصارهم كلما أضاء لهم مشوا فيه وإذا أظلم عليهم قاموا ولو شاء الله لذهب بسمعهم وأبصارهم إن الله على كل شيء قدير
سورة: البقرة - آية: ( 20 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 4 )Surah baqarah Ayat 20 meaning in urdu
چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اِس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑ ے ہو جاتے ہیں اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سَلب کر لیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- فرعون نے کہا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر
- دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)
- (ان سے کہا جائے گا کہ) ان میں سلامتی (اور خاطر جمع سے) داخل ہوجاؤ
- اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش
- اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر
- اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت (پڑتی) رہے گی
- وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند
- اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت
- جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم (عذاب) قرار پاچکا ہے وہ ایمان نہیں
- لیکن جب وہ ان کو نجات دے دیتا ہے تو ملک میں ناحق شرارت کرنے
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers