Surah Ghafir Ayat 28 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ﴾
[ غافر: 28]
اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور وہ تمہارے پروردگار (کی طرف) سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا۔ اور اگر سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر واقع ہو کر رہے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو بےلحاظ جھوٹا ہے
Surah Ghafir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔
( 2 ) یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناًوہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
( 3 ) اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا ( جیساکہ تم باور کراتے ہو ) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت۔مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( ؒ تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ کو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہوسکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پہنچائی ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور ﷺ کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر ؓ دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کا مجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے ؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے۔ حضرت ابوبکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت اتقتلون کی تلاوت کی۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقینا تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں ؟ حضرت موسیٰ ؑ نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا۔ جیسے کہ آیت ( وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ 17ۙ ) 44۔ الدخان:17) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں۔ تم مجھے سنگسار کردو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان ﷺ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو ! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے۔ بڑی عزت دی ہے۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آجائے گا۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے ؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جیسے فرمان باری ہے ( لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا01002 ) 17۔ الإسراء :102) یعنی حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں اور آیت میں ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14ۧ ) 27۔ النمل:14) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کردیا۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آگئی اور فرعون کی بات مان لی۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 28 { وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌق مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ } ” اور آل فرعون میں سے ایک مومن مرد نے ‘ جو ابھی تک اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ‘ کہا : “ اس مرحلے پر اس مرد مومن نے صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کلمہ حق زبان پر لانے کا فیصلہ کرلیا۔ چناچہ اس نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بھرے دربار میں اس مطلق العنان فرعون کے سامنے کھڑے ہو کر ” حق گوئی و بےباکی “ کی ایسی مثال قائم کی کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور جملے گویا ع ” موتی سمجھ کے شان کریمی نے ُ چن لیے ! “ اور پھر ان موتیوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے جاں نثارانِ حق کی آنکھوں کی طراوت کے لیے صفحاتِ قرآن کی زینت بنا دیا۔ چناچہ فرعون نے جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی قرارداد پیش کی ‘ یہ مرد مومن فوراً بول اٹھا اور اس نے فرعون اور تمام اہل دربار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا : { اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ } ” کیا تم قتل کرنا چاہتے ہو ایک شخص کو محض اس لیے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ! “ کیا کسی شخص کا اللہ کو رب ماننا تمہارے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں تم اس کی جان کے درپے ہوگئے ہو ؟ ایک مرتبہ جب مشرکین مکہ نے حضور ﷺ کی سر عام ہجو کی اور آپ ﷺ پر حملہ آور ہوئے تو اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رض بیچ میں آگئے اور انہوں رض نے مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے یہی الفاظ دہرائے تھے : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ 1 ” کیا تم لوگ ایک شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے صرف اس لیے ہو رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ! “ { وَقَدْ جَآئَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُم } ” حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔ “ { وَاِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ } ” اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر آئے گا۔ “ { وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ } ” اور اگر وہ سچا ہوا تو تمہیں وہ بعض باتیں پہنچ کر رہیں گی جن کے بارے میں وہ تمہیں وعید سنا رہا ہے۔ “ ایسی صورت میں تم پر عذاب الٰہی کی مار پڑے گی اور تم تباہ و برباد کردیے جائو گے۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ } ” یقینا اللہ تعالیٰ راہ یاب نہیں کرتا اس کو جو حد سے بڑھنے والا ‘ بہت جھوٹا ہو۔ “
وقال رجل مؤمن من آل فرعون يكتم إيمانه أتقتلون رجلا أن يقول ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم وإن يك كاذبا فعليه كذبه وإن يك صادقا يصبكم بعض الذي يعدكم إن الله لا يهدي من هو مسرف كذاب
سورة: غافر - آية: ( 28 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 470 )Surah Ghafir Ayat 28 meaning in urdu
اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا: "کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اے محمدﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ خدا
- جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقرر ہوچکی ہے۔ وہ اس سے
- پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے سخت لڑائی لڑنے والے بندے
- تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
- اور کوئی پیغمبر ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کرتے
- (اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ (اب) وہ خواہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا
- جو مومن ہیں وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ
- (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب)
- اور ان کو دین کے بارے میں دلیلیں عطا کیں۔ تو انہوں نے جو اختلاف
- اور آخرت او ردنیا ہماری ہی چیزیں ہیں
Quran surahs in English :
Download surah Ghafir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ghafir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ghafir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers