Surah Al Araaf Ayat 200 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
[ الأعراف: 200]
اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو خدا سے پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اور اس موقعے پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کرو۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول، تجسس نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔ عرف سے مراد نیک ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی۔ امیرالمومنین ؓ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ ؒ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے ؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آگیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیرلیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کرلیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ ﷺ تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے۔ شعر ( خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر، بھلی بات بتادیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے، نادانوں سے ہٹ جا یا کر، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کرلے اور ان کے سر نہ ہوجا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کرلے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96 ) 23۔ المؤمنون :96) بہترین طریق سے دفع کردو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہوسکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں۔ اس کے بعد شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہوجاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں۔ یہ تینوں حکم جو سورة اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورة مومنون میں بھی ہیں اور سورة حم السجدہ میں بھی۔ شیطان تو حضرت آدم ؑ کے وقت سے دشمن انسان ہے۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوجائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہوجائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہوجاؤ گے۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے۔ وہ کلمہ ( " اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " ) ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہوگیا ہوں ؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے۔ ( بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ )یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جا ہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 200 وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِطاِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ نزع اور نزغ ملتے جلتے حروف والے دو مادے ہیں ‘ ان میں صرف ع اور غ کا فرق ہے۔ نزع کھینچنے کے معنی دیتا ہے جبکہ نزغ کے معنی ہیں کچوکا لگانا ‘ اکسانا ‘ وسوسہ اندازی کرنا۔ یعنی اگر بر بنائے طبع بشری کبھی جذبات میں اشتعال اور غصہ آہی جائے تو فوراً بھانپ لیں کہ یہ شیطان کی جانب سے ایک چوک ہے ‘ چناچہ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں۔ جیسا کہ غزوۂ احد میں حضور ﷺ کو غصہ آگیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ نکل گئے تھے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1 یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا ! یہ آیت آگے چل کرسورۂ حٰم السجدۃ میں ایک لفظ ہُوَ کے اضافے کے ساتھ دوبارہ آئے گی : اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کہ یقیناً وہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔
وإما ينـزغنك من الشيطان نـزغ فاستعذ بالله إنه سميع عليم
سورة: الأعراف - آية: ( 200 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 176 )Surah Al Araaf Ayat 200 meaning in urdu
اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے کہ (جو
- تو اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے صریح دھواں نکلے گا
- اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو
- تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا اس کی
- اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور
- اور اگر تم (میری) تکذیب کرو تو تم سے پہلے بھی اُمتیں (اپنے پیغمبروں کی)
- (قیام) آدھی رات (کیا کرو)
- اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ
- اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ (یہ) میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی
- مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دے
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers