Surah ahzab Ayat 21 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾
[ الأحزاب: 21]
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الآية ( الحشر ) اور إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ الآية ( آل عمران: 31 ) کا مفاد بھی یہی ہے۔
( 2 ) اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ٹھوس دلائل اتباع رسول ﷺ کو لازم قرادتیے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت ﷺ کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور ﷺ نے قائم کی۔ مثلا راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقینا یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزو اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ تم نے میرے نبی ﷺ کی تابعداری کیوں نہ کی ؟ میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو حضور ﷺ کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کا وعدہ غلط ہو یقینا ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ) 29۔ العنكبوت:2) یعنی کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے ؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی۔ اللہ اور اس کا رسول ﷺ سچا ہے فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول ﷺ کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے۔ یقین کامل ہوگیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ۔ پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں مانا کرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے ‘ غزوئہ احزاب کا واقعہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی ‘ جس کا مقصد کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا تھا۔ چناچہ اس آزمائش کے نتیجے میں انسانی کردار کی دو تصاویر سامنے آئیں۔ ایک اندھیرے کی تصویر تھی اور دوسری اجالے کی۔ ان میں سے اندھیرے کی تصویر کا تذکرہ گزشتہ آیات میں ہوا جبکہ دوسری تصویر کی جھلک آئندہ آیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ اجالے کی اس تصویر میں خورشید ِعالم تاب کی علامت چونکہ حضور ﷺ کا کردار ہے اس لیے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا :آیت 21{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ” اے مسلمانو ! تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے “ بظاہر ہمارے ہاں اس آیت کی تفہیم وتعلیم بہت عام ہے۔ سیرت کا کوئی سیمینار ہو ‘ میلاد کی کوئی محفل ہو یا کسی واعظ رنگین بیان کا وعظ ہو ‘ اس آیت کی تلاوت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے سیرت و کردار کا نمونہ اپنانے کی جو صورت آج مسلمانوں کے ہاں عموماً دیکھنے میں آتی ہے اس کا تصور بہت محدود نوعیت کا ہے اور جن سنتوں کا تذکرہ عام طور پر ہمارے ہاں کیا جاتا ہے وہ محض روز مرہ کے معمولات کی سنتیں ہیں ‘ جیسے مسواک کی سنت یا مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں پائوں اندر رکھنے اور باہر نکلتے ہوئے بایاں پائوں باہر رکھنے کی سنت۔ یقینا ان سنتوں کو اپنانے کا بھی ہمیں اہتمام کرنا چاہیے اور ہمارے لیے حضور ﷺ کی ہر سنت یقینا منبع خیر و برکت ہے۔ لیکن اس آیت کے سیاق وسباق کو مدنظر رکھ کر غور کریں تو یہ نکتہ بہت آسانی سے سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں جس اسوہ کا ذکر ہوا ہے وہ طاقت کے نشے میں بدمست باطل کے سامنے بےسروسامانی کے عالم میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹ جانے کا اسوہ ہے۔ اور اسوہ رسول ﷺ کا یہی وہ پہلو ہے جو آج ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ دراصل اس آیت میں خصوصی طور پر حضور ﷺ کے اس کردار کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس کا نظارہ چشم ِفلک نے غزوہ خندق کے مختلف مراحل کے دوران کیا۔ اس دوران اگر کسی مرحلے پر فاقوں سے مجبور صحابہ رض نے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے دکھائے تو حضور ﷺ نے بھی اپنی قمیص اٹھا کر اپنا پیٹ دکھایا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اس وقت اگر صحابہ رض خندق کی کھدائی میں لگے ہوئے تھے تو ان کے درمیان حضور ﷺ خود بھی بڑے بڑے پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنے میں مصروف تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کوئی سنگلاخ چٹان صحابہ رض کی ضربوں سے ٹوٹ نہ سکی اور حضور ﷺ کو اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے بنفس ِ نفیس اپنے ہاتھوں سے ضرب لگا کر اسے پاش پاش کیا۔ اس مشکل گھڑی میں ایسا نہیں تھا کہ حضور ﷺ کے لیے پر آسائش خیمہ نصب کردیا گیا ہو ‘ آپ ﷺ اس میں محو استراحت ہوں ‘ خدام ّمورچھل لیے آپ ﷺ کی خدمت کو موجود ہوں اور باقی لوگ خندق کھودنے میں لگے ہوئے ہوں۔ حضور ﷺ کے اسوہ اور آپ ﷺ کی سنت کو عملی طور پر اپنائے جانے کے معاملے کو سمجھانے کے لیے عام طور پر میں معاشیات کی دو اصطلاحات macro economics اور micro economics کی مثال دیا کرتا ہوں۔ یعنی جس طرح macro economics کا تعلق بہت بڑی سطح کے معاشی منصوبوں یا کسی ملک کے معاشی نظام کے مجموعی خدوخال سے ہے ‘ اور چھوٹے پیمانے پر معمول کی معاشی سرگرمیوں کے مطالعے کے لیے micro economics کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ‘ اسی طرح اگر ہم macro sunnah اور micro sunnah کی اصطلاحات استعمال کریں اور اس حوالے سے اپنا اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ آج ہماری اکثر یت ” مائیکرو سنت “ سے تو خوب واقف ہے ‘ اکثر لوگ روز مرہ معمول کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ‘ بلکہ بعض اوقات جذبات کی رو میں بہہ کر اس بنا پر دوسروں کے ساتھ جھگڑے بھی مول لیتے ہیں ‘ لیکن ” میکرو سنت “ کی اہمیت و ضرورت کا کسی کو ادراک ہے اور نہ ہی اس کی تعمیل کی فکر اِلاَّ مَا شَا ئَ اللّٰہ۔ مثلاً حضور ﷺ کی سب سے بڑی macro سنت تو یہ ہے کہ وحی کے آغاز یعنی اپنی چالیس سال کی عمر کے بعد آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی معاشی جدوجہد کے لیے صرف نہیں کیا اور نہ ہی اپنی زندگی میں آپ ﷺ نے کوئی جائیداد بنائی۔ بعثت سے پہلے آپ ﷺ ایک خوشحال اور کامیاب تاجر تھے ‘ لیکن سورة المدّثر کی ان آیات کے نزول کے بعد آپ ﷺ کی زندگی یکسر بدل گئی : { یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ ” اے چادر اوڑھنے والے ! اُٹھیے ‘ اور لوگوں کو خبردار کیجیے ‘ اور اپنے رب کی تکبیرکیجیے “۔ اس حکم کی تعمیل میں گویا آپ ﷺ نے اپنی ہر مصروفیت کو ترک کردیا ‘ ہر قسم کی معاشی جدوجہد سے پہلو تہی اختیار فرمالی ‘ اور اپنی پوری قوت و توانائی ‘ تمام تر اوقات اور تمام تر تگ و دو کا رخ دعوت دین ‘ اقامت ِدین اور تکبیر رب کی طرف پھیر دیا۔ یہ وہ ” میکرو سنت “ ہے جس سے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خالی نظر نہیں آتا۔ آج اس درجے میں نہ سہی مگر اس میکرو سنت کے رنگ کی کچھ نہ کچھ جھلک تو بحیثیت مسلمان ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے ‘ اور اس رنگ کے ساتھ ساتھ مائیکرو قسم کی سنتوں کا بھی اہتمام کیا جائے تو وہ یقینا نورٌ علیٰ نور والی کیفیت ہوگی۔ لیکن اگر ہم اپنی ساری توانائیاں صرف چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اہتمام میں ہی صرف کرتے رہیں ‘ برش کے بجائے مسواک کا استعمال کرکے سو شہیدوں کے برابر ثواب کی امید بھی رکھیں اور اتباعِ سنت کے اشتہار کے طور پر ہر وقت مسواک اپنی جیب میں بھی لیے پھریں ‘ لیکن اپنی زندگیوں کا عمومی رخ متعین کرنے میں ” میکرو سنت “ کا بالکل بھی لحاظ نہ کریں تو ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارا یہ طرز عمل اسوہ رسول ﷺ سے کس قدر مطابقت اور مناسبت رکھتا ہے ! { لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ } ” یہ اسوہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو “ { وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا } ” اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ “ یعنی حضور ﷺ کا اسوہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو ان تین شرائط کو پورا کرے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا متمنی ہو ‘ یعنی اللہ سے محبت کرتا ہو۔ دوسری شرط یہ کہ وہ شخص یوم آخرت کی بھی امید رکھتا ہو ‘ یعنی بعث بعد الموت پر اس کا یقین ہو۔ اور تیسری شرط یہ کہ وہ اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتا ہو۔ گویا ہر وقت اللہ کو یاد رکھتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے حوالے سے ان شرائط کے فلسفے کو سورة البقرة کی آیت 2 اور آیت 185 کی روشنی میں سمجھئے۔ سورة البقرة کی آیت 185 میں قرآن کو ہُدًی لِّلنَّاسِ تمام نوع انسانی کے لیے ہدایت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آیت 2 میں اس ہدایت سے استفادہ کو ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کی شرط سے مشروط کردیا گیا ہے کہ قرآن سے صرف وہی لوگ ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو تقویٰ کی روش پر کاربند ہیں۔ اس اصول کی روشنی میں آیت زیرمطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ کا اسوہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل اور منبع ِرشد و ہدایت ہے لیکن اس سے استفادہ صرف وہی لوگ کرسکیں گے جو ان تین شرائط پر پورا اترتے ہوں۔ حضور ﷺ کے اسوہ کے ذکر کے بعد آگے آپ ﷺ کے صحابہ رض کے کردار کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ گویا وہی ترتیب ہے جو سورة الفتح کی آخری آیت میں آئی ہے : { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ …} ” محمد ﷺ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ‘ اور وہ لوگ جو آپ ﷺ کے ساتھ ہیں… “ یعنی پہلے حضور ﷺ کا ذکر اور پھر اس کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ کرام ﷺ کا۔
لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا
سورة: الأحزاب - آية: ( 21 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 420 )Surah ahzab Ayat 21 meaning in urdu
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اُس دن (ہوگا) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا
- اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بلاشبہ وہ نیکوکار تھے
- جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم (لوگوں) کو کشتی میں سوار کرلیا
- اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا
- ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے مبنی برحکمت
- اے گروہِ جن وانس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے
- اور (کفر کرنے والوں کی) کوئی بستی نہیں مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم
- جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ درد دینے والا عذاب ہے
- اور داؤد اور سلیمان (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا
- جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انہوں نے) کہا کہ ہمیں تو
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers