Surah baqarah Ayat 219 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ﴾
[ البقرة: 219]
(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بڑا گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔
( 2 ) فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے، مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی ومستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی خرید وفروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جُوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے، لیکن یہ فائدے ان نقصانات ومفاسد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ ( ان کا گناہ، ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے۔ ) اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام وقرار نہیں دیا گیا، تاہم اس کے لئے تمہید باندھ دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک بہت اہم اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز میں چاہے وہ کتنی بھی بری ہو،کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات ہی اور لوگ ان کے بعض فوائد بیان کرکے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے۔ خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحا ظ سے۔ اگر دینی نقطۂ نظر سے نقصانات و مفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔
( 3 ) اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے، یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا، جس پر فرضیت زکٰوۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا، تاہم افضل ضرور ہے، یا اس کے معنی ہیں ” مَا سَهُلَ وَتَيَسَّرَ وَلَمْ يَشُقْ عَلَى الْقَلْبِ “ ( فتح القدير ) ” جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق ( گراں ) نہ گزرے “ اسلام نے یقیناً انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیرکفالت افراد کی خبرگیری اور ان کی ضروریات کو مقدم رکھنے میں حکم دیا ہے۔ دوسرے، اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہل خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جائے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حرمت شراب کیوں ؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورة بقرہ کی یہ آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) 2۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورة نساء کی آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ) 4۔ النساء:43) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورة مائدہ کی آیت ( انما الخمر۔ الخ ) اتری جب فاروق اعظم ؓ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ ( فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ) 5۔ المائدة:91) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد، ترمذی اور نسائی وغیرہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے ( انتہینا انتہینا ) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورة مائدہ کی آیت ( انما الخمر ) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورة مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہوجائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خریدو فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہوجائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہوجائے، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چناچہ آخرکار سورة مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورة مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہوگئی۔عفو اور اس کی وضاحتیں ( فل العفو ) کی ایک قرأت قل العفو بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہوسکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور ﷺ ! ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت ( قل العفو ) کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے، حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو، ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ، چناچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا حضور ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا حضرت ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کرسکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور اور حاجت مندوں پر، اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہوگیا، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے، ٹھیک قول یہی ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری۔ پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت ( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6۔ الأنعام:152) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ) 4۔ النساء:10)۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کردیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہوجائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیاں یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور ﷺ سے عرض کی جس پر یہ آیت ( قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2۔ البقرۃ :220) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی، ابو داود و نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے، حضرت صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کردی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لاسکتا ہے، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے، یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورة نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 219 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط ان احکام سے شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ‘ کچھ احکام پہلے آ چکے ہیں اور کچھ اب آ رہے ہیں۔ شراب اور جوئے کے بارے میں یہاں ابتدائی حکم بیان ہوا ہے اور اس پر محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا ہے۔قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط۔ یعنی اشارہ کردیا گیا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اب معاملہ تمہاری عقل سلیم کے حوالے ہے ‘ حقیقت تم پر کھول دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی حکم ہے ‘ لیکن حکم کے پیرائے میں نہیں۔ بس واضح کردیا گیا کہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بقول غالب : مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !اور : میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا ورنہ سفر حیات کا بیحد طویل تھا !یہ حکمت سمجھ لیجیے کہ شراب اور جوئے میں کیا چیز مشترک ہے کہ یہاں دونوں کو جمع کیا گیا ؟ شراب کے نشے میں بھی انسان اپنے آپ کو حقائق سے منقطع کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا مواجہہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ع اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !۔۔ اور جوئے کی بنیاد بھی محنت کی نفی پر ہے۔ ایکّ رویہ تو یہ ہے کہ محنت سے ایک آدمی کما رہا ہے ‘ مشقت کر رہا ہے ‘ کوئی کھوکھا ‘ چھابڑی یا ریڑھی لگا کر کچھ کمائی کر رہا ہے ‘ جبکہ ایک ہے چانس اور داؤ کی بنیاد پر پیسے کمانا۔ یہ محنت کی نفی ہے۔ چناچہ شراب اور جوئے کے اندر اصل میں علت ایک ہی ہے۔ وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط آیت 195 میں انفاق کا حکم بایں الفاظ آچکا ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ جھونکو۔ تو سوال کیا گیا کہ کتنا خرچ کریں ؟ ہمیں کچھ مقدار بھی بتادی جائے۔ فرمایا :قُلِ الْعَفْوَ ط جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ تم اپنی ضرورتوں کو پیچھے ڈال دو ‘ بلکہ تم پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرو ‘ پھر جو تمہارے پاس بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ کمیونزم کے فلسفہ میں ایک اصطلاح قدر زائد surplus value استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہے اَلْعَفْوَ۔ جو بھی تمہاری ضروریات سے زائد ہے یہ surplus value ہے ‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو۔ اس کو بچا کر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ پر بےاعتمادی کا اظہار کرر ہے ہیں کہ اللہ نے آج تو دے دیا ہے ‘ کل نہیں دے گا۔ لیکن یہ کہ انسان کی ضرورتیں کیا ہیں ‘ کتنی ہیں ‘ اس کا اللہ نے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا۔ اس کا تعلق باطنی روح سے ہے۔ ایک مسلمان کے اندر اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان جوں جوں بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ اپنی ضرورتیں کم کرے گا ‘ اپنے معیارِزندگی کو پست کرے گا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے گا۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ جو میری ضرورت سے زائد ہے اسے میں بچا بچا کر نہ رکھوں ‘ بلکہ اللہ کی راہ میں دے دوں۔ انفاق فی سبیل اللہ پر اس سورة مبارکہ میں پورے دو رکوع آگے آنے والے ہیں۔
يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس وإثمهما أكبر من نفعهما ويسألونك ماذا ينفقون قل العفو كذلك يبين الله لكم الآيات لعلكم تتفكرون
سورة: البقرة - آية: ( 219 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 34 )Surah baqarah Ayat 219 meaning in urdu
پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تمام شخص جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خدا کے روبرو بندے ہو کر
- اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو (تم جانتے ہو کہ) میں نے تم
- اور ان میں ان کے لئے (اور) فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں۔ تو یہ
- اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا
- (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو
- کہو کہ اہلِ کتاب! تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر کرتے ہو اور خدا
- اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں
- لیکن خدا نے جو (کتاب) تم پر نازل کی ہے اس کی نسبت خدا گواہی
- اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں
- ہمیں اس شہر (مکہ) کی قسم
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers