Surah ahzab Ayat 22 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا﴾
[ الأحزاب: 22]
اور جب مومنوں نے (کافروں کے) لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا خدا اور اس کے پیغمبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اس کے پیغمبر نے سچ کہا تھا۔ اور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت اور زیادہ ہوگئی
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی منافقین نے تو دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول ( (صلى الله عليه وسلم ) ) کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ ابتلا وامتحان سے گزرنے کے بعد تمہیں فتح ونصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔
( 2 ) یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نےان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبۂ اطاعت وانقیاد اور تسلیم ورضا میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ٹھوس دلائل اتباع رسول ﷺ کو لازم قرادتیے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت ﷺ کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور ﷺ نے قائم کی۔ مثلا راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقینا یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزو اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ تم نے میرے نبی ﷺ کی تابعداری کیوں نہ کی ؟ میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو حضور ﷺ کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کا وعدہ غلط ہو یقینا ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ) 29۔ العنكبوت:2) یعنی کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے ؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی۔ اللہ اور اس کا رسول ﷺ سچا ہے فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول ﷺ کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے۔ یقین کامل ہوگیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ۔ پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں مانا کرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 22 { وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ } ” اور جب اہل ِایمان نے دیکھا ان لشکروں کو “ { قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ } ” تو انہوں نے کہا کہ یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ‘ اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے۔ “ ان کے دلوں نے فوراً ہی گواہی دے دی کہ یہ وہی صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہمیں ان الفاظ میں متنبہ ّکر دیا تھا : { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ } البقرۃ : 155 ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے ‘ اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ “ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو ہمیں یہاں تک خبردار کردیا تھا : { لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا } آل عمران : 186 ” مسلمانو یاد رکھو ! تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی ‘ اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں ‘ ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور مشرکین سے بھی۔ “ یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ محاصرے کی جس صورت حال پر منافقین نے { مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۔ کے الفاظ میں تبصرہ کیا تھا اسی صورت حال پر مومنین کا تبصرہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یعنی ایک ہی صورت حال میں دونوں فریقوں کا رد عمل مختلف بلکہ متضاد تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے عمل اور اس کے رویے ّکا انحصار اس کے دل کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة البقرة کی آیت 26 میں قرآن کریم کے حوالے سے یوں واضح کیا گیا ہے : { یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاط } یعنی اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ { وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا } ” اور اس واقعہ نے ان میں کسی بھی شے کا اضافہ نہیں کیا مگر ایمان اور فرمانبرداری کا۔ “ یعنی یہ آزمائش مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ تسلیم و رضا میں مزید اضافہ کرگئی۔ محاصرے کے پورے عرصے کے دوران میں ہر قسم کی مصیبت اور پریشانی کے سامنے وہ ع ” سر ِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے “ کے نعرئہ مستانہ کی عملی تصویر بنے رہے۔ گویا مومن تو ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ اللہ کے راستے میں اس کی کوششیں دنیا میں ہی بار آور ہوں یا اس جدوجہد میں اس کی جان چلی جائے ‘ وہ دونوں صورتوں میں سرخرو ٹھہرتا ہے۔ سورة التوبة کی آیت 52 میں ان دونوں صورتوں کو اَلْحُسْنَـیَیْن دو بھلائیاں قرار دیا گیا ہے : { قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِط } ” اے مسلمانو ! ان منافقین سے کہو کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کرسکتے ہو ؟ سوائے دو بھلائیوں میں سے ایک کے ! “ یعنی تبوک کی اس مہم کے دوران میں جو صورت بھی ہمارے درپیش ہو ہمارے لیے اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اگر فتح یاب ہو کر لوٹے تو دنیا کی کامیابیاں پائیں گے اور اگر شہید ہوگئے تو جنت کی ابدی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔ سورۃ التوبہ 9 ہجری میں سورة الأحزاب کے چار سال بعد نازل ہوئی۔ یہ راستہ دراصل عشق کا راستہ ہے اور اس راستے کے مسافروں کی نظر ظاہری مفاد کے بجائے اپنے محبوب کی رضا پر ہوتی ہے۔ حالات موافق و سازگار ہوں یا مخدوش و نامساعد ‘ وہ اس کی پروا کیے بغیر اپنے محبوب کی خوشنودی کے لیے سر گرم عمل رہتے ہیں۔ بقول غالب : ؎ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی !
ولما رأى المؤمنون الأحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله وما زادهم إلا إيمانا وتسليما
سورة: الأحزاب - آية: ( 22 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 420 )Surah ahzab Ayat 22 meaning in urdu
اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ "یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی" اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا
- وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند
- جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور
- اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں
- کیا خدا کے سوا ان کا کوئی اور معبود ہے؟ خدا ان کے شریک بنانے
- یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ راتوں
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور
- تو آج تم سے معاوضہ نہیں لیا جائے گا اور نہ (وہ) کافروں ہی سے
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers