Surah Ahqaf Ayat 22 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾
[ الأحقاف: 22]
کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ
Surah Ahqaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) لِتَأْفِكَنَا لِتَصْرِفَنَا یا لِتَمْنَعَنَا یا لِتُزِلَنَا، سب متقارب المعنی ہیں۔ تاکہ تو ہمیں ہمارے معبودوں کی پرستش سےپھیر دے، روک دے، ہٹا دے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قوم عاد کی تباہی کے اسباب جناب رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کرلیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد حضرت ہود پیغمبر ہیں ؑ والصلوۃ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو احقاف میں رہتے تھے احقاف جمع ہے حقف کی اور حقف کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضرموت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی احقاف کا بیان کیا گیا ہے قتادہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شہر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے امام ابن ماجہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 66 ) 2۔ البقرة :66) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41۔ فصلت :13) ، پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہوگا۔ جس پر قوم نے کہا کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18 ) 42۔ الشوری :18) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بیوقوف لوگ ہو اب اللہ کا عذاب آگیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے چونکہ خشک سالی تھی گرمی سخت تھی یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے اب بارش برسے گی۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے اس میں وہ عذاب تھا جسے حضرت ہود سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے اللہ کا حکم تھا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42ۭ ) 51۔ الذاريات:42) یعنی جس چیز پر وہ گذر جاتی تھی اسے چورا چورا کردیتی تھی۔ پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہوگئے ایک بھی نہ بچ سکا۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا رہا تھا ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرا ایک کام اللہ کے رسول ﷺ سے ہے کیا تو مجھے حضور ﷺ تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور حضرت بلال تلوار لٹکائے حضور ﷺ کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا حضور ﷺ عمرو بن عاص کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب آنحضور ﷺ اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا اسلام علیک کی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چناچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے آپ نے فرمایا اسے بھی اندر بلا لو چناچہ وہ آگئیں میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کرسکتے ہیں تو اسے کر دیجئے اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یارسول اللہ ﷺ آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ " اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری " مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ واللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہوجاؤں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجودیکہ حضور ﷺ اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آکر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے تو آیا نہیں الہٰی عادیوں کو وہ پلا جو تو نے انہیں پلانے والا ہے چناچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کرلے چناچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کرلیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہوگئے۔ ابو وائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہہ دیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا۔ یہ روایت ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ جیسے کہ سورة اعراف کی تفسیر میں گذرا مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہوجاتے۔ چناچہ ایک روز میں نے آپ سے کہا یارسول اللہ لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہوجاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہوجاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اعوذ بک من شرما فیہ ) اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے۔ پس اگر کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے ( اللھم صیبا نافعا ) اے اللہ اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اسألک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واعوذ بک من شرھا ما فیھا وشر ما ارسلت بہ ) یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کے یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا کبھی اندر کبھی باہر آتے کبھی جاتے۔ جب بارش ہوجاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہوجاتی۔ حضرت عائشہ نے اسے سمجھ لیا اور آپ سے ایک بار سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا۔ سورة اعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور حضرت ہود کا پورا واقعہ گذر چکا ہے اس لئے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے ( فللہ الحمد والمنہ ) طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آرہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن یہ جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہوگئے ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 22 { قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِکَنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا } ” انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دو ؟ “ { فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } ” تو جس عذاب کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو وہ ہم پر لے آئو اگر تم سچوں میں سے ہو ! “
قالوا أجئتنا لتأفكنا عن آلهتنا فأتنا بما تعدنا إن كنت من الصادقين
سورة: الأحقاف - آية: ( 22 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 505 )Surah Ahqaf Ayat 22 meaning in urdu
انہوں نے کہا "کیا تو اِس لیے آیا ہے کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دے؟ اچھا تو لے آ اپنا وہ عذاب جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہی (خدا کے) مقرب ہیں
- اور خدا کے سوا ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے کہ خدا کے سوا
- رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل
- اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا
- اور جب انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق
- اور جو کچھ انہوں نے کیا، (ان کے) اعمال ناموں میں (مندرج) ہے
- اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں)
- جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو
- ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا اور
- اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی (تہمت
Quran surahs in English :
Download surah Ahqaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ahqaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ahqaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers