Surah taghabun Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾
[ التغابن: 6]
یہ اس لئے کہ ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ کہتے کہ کیا آدمی ہمارے ہادی بنتے ہیں؟ تو انہوں نے (ان کو) نہ مانا اور منہ پھیر لیا اور خدا نے بھی بےپروائی کی۔ اور خدا بےپروا (اور) سزاوار حمد (وثنا) ہے
Surah taghabun Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ذَلِكَ ،یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف، جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔
( 2 ) یہ ان کے کفر کی علت ہے کہ انہوں نے یہ کفر، جو ان کے عذاب دارین کا باعث بنا ، اس لیے اختیار کیا کہ انہوں نے ایک بشر کو اپنا ہادی ماننے سے انکار کر دیا۔ یعنی ایک انسان کا رسول بن کر لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آنا، ان کے لیے ناقابل قبول تھا جیسا کہ آج بھی اہل بدعت کے لیے رسول کو بشر ماننا نہایت گراں ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى۔
( 3 ) چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ماننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔
( 4 ) یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے ، اس پر انہوں نے غور وتدبر ہی نہیں کیا۔
( 5 ) یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔
( 6 ) اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟
( 7 ) یا محمود ہے ( تعریف کیا گیا ) تمام مخلوقات کی طرف سے۔ یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سابقہ واقعات سے سبق لو یہاں گزشتہ کافروں کے کفر اور ان کی بری سزا اور بدترین بدلے کا ذکر ہو رہا ہے کہ کیا تمہیں تم سے پہلے منکروں کا حال معلوم نہیں ؟ کہ رسولوں کی مخالفت اور حق کی تکذیب کیا رنگ لائی ؟ دنیا اور آخرت میں برباد ہوگئے یہاں بھی اپنے بد افعال کا خمیازہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے جو نہایت الم انگیز ہے۔ اس کی وجہ سوا اس کے کچھ بھی نہیں کہ دلائل وبراہین اور روشن نشان کے ساتھ جو انبیاء اللہ ان کے پاس آئے انہوں نے انہیں نہ مانا اور اپنے نزدیک اسے محال جانا کہ انسان پیغمبر ہو، اور انہی جیسے ایک آدم زاد کے ہاتھ پر انہیں ہدایت دی جائے پس انکار کر بیٹھے اور عمل چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بےپرواہی برتی وہ تو غنی ہے ہی اور ساتھ ہی حمد وثناء کے لائق بھی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 6{ ذٰلِکَ بِاَنَّــہٗ کَانَتْ تَّــاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ } ” یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے رہے واضح نشانیاں لے کر “ { فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَـنَاز فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّـوْا } ” تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ پس انہوں نے کفر کیا اور رُخ پھیرلیا “ { وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔ } ” اور اللہ نے بھی ان سے بےنیازی اختیار کی۔ اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز ‘ ستودہ صفات۔ “ یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول علیہ السلام کا انکار کرتے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا غلط ہے ‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا بھی غلط ہے۔ یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پر کینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ہر قوم نے اپنے رسول علیہ السلام پر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے ‘ یہ بالکل ہمارے جیسا ہے ‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے ‘ فلاں کا پوتا ہے ‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول علیہ السلام کی رسالت کا انکار کردیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہوگیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا تو کسی نے خدا کا بیٹا۔ صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضور ﷺ سے بار بار کہلوایا گیا : { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ } الکہف : 110 کہ اے نبی ﷺ ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘ بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چناچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ” بڑے بھائی “ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اس نے بھی حد ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوگا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔ بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘ لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضور ﷺ کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جب صحابہ کرام رض نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ خود تو صوم وصال کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اَیُّکُمْ مِثْلِیْ ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ 1 ” تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے “۔ اسی طرح حضور ﷺ کا فرمان ہے : فَوَ اللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَائَ ظَھْرِیْ 2 ” اللہ کی قسم ! نماز باجماعت میں تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے ‘ میں تو اپنے پس پشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں “۔ صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔ پھر معراج کے موقع پر آپ ﷺ کا راتوں رات مکہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا ‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا ‘ یہ سب آپ ﷺ کے امتیازی خصائص ہیں۔ دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپ ﷺ انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے ‘ جنگ احد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘ بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ ! 3” اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے کامیاب کرے گا جس نے اپنے نبی ﷺ کا چہرہ خون سے رنگین کردیا ! “ بہرحال بلاشبہ آپ ﷺ بشر تھے ‘ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘ لیکن آپ ﷺ کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپ ﷺ کے شایانِ شان تھا۔۔۔۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالآخرت کا ذکر ہے :
ذلك بأنه كانت تأتيهم رسلهم بالبينات فقالوا أبشر يهدوننا فكفروا وتولوا واستغنى الله والله غني حميد
سورة: التغابن - آية: ( 6 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 556 )Surah taghabun Ayat 6 meaning in urdu
اِس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنہوں نے کہا "کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟" اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو جو شخص اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے
- تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ یہ تو تم
- اور جس روز قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) ایک
- جس وقت وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے
- ہم نے ہر چیز اندازہٴ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے
- اور ان کو ٹھیرائے رکھو کہ ان سے (کچھ) پوچھنا ہے
- دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے
- (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب)
- اور جب ظالم لوگ عذاب دیکھ لیں گے تو پھر نہ تو اُن کے عذاب
- خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک
Quran surahs in English :
Download surah taghabun with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taghabun mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taghabun Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers