Surah Shuara Ayat 227 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الشعراء کی آیت نمبر 227 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Shuara ayat 227 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾
[ الشعراء: 227]

Ayat With Urdu Translation

مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں

Surah Shuara Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس سے ان شاعروں کو مستثنیٰ فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مومن، عمل صالح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر غلط شاعری، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط و تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سےعاری ہوں۔
( 2 ) یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعراء کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی ہجو ( برائی ) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت ( رضي الله عنه ) کافروں کی ہجویہ شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) ان کو فرماتے کہ ” ان ( کافروں ) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل ( عليه السلام ) بھی تمہارے ساتھ ہیں “۔ ( صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، مسلم، فضائل حسان بن ثابت ) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی شاعری جائز ہے جس میں کذب و مبالغہ نہ ہو اور جس کے ذریعے سے مشرکین و کفار اور مبتدعین و اہل باطل کو جواب دیاجائے اور مسلک حق اور توحید و سنت کا اثبات کیاجائے۔
( 3 ) یعنی أَيَّ مَرْجَع يَرْجِعُونَ یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لیے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ” تم ظلم سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا “۔ ( صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم )۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


شیاطین اور جادوگر مشرکین کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا لایا ہوا یہ قرآن برحق نہیں۔ اس نے اسکو خود گھڑلیا ہے یا اس کے پاس جنوں کا کوئی سردار آتا ہے جو اسے یہ سکھا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس اعتراض سے پاک کیا اور ثابت کیا کہ آپ جس قرآن کو لائے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے اسی کا اتارا ہوا ہے۔ بزرگ امین طاقتور فرشتہ اسے لایا ہے۔ یہ کسی شیطان یا جن کی طرف سے نہیں شیاطین تو تعلیم قرآن سے چڑتے ہیں اس کی تعلیمات ان کے یکسر خلاف ہیں۔ انہیں کیا پڑی کہ ایسا پاکیزہ اور راہ راست پر لگانے والا قرآن وہ لائیں اور لوگوں کو نیک راہ بتائیں وہ تو اپنے جیسے انسانی شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو پیٹ بھر کر جھوٹ بولنے والے ہوں۔ بدکردار اور گناہگار ہوں۔ ایسے کاہنوں اور بدکرداروں اور جھوٹے لوگوں کے پاس جنات اور شیاطین پہنچتے ہیں کیونکہ وہ بھی جھوٹے اور بداعمال ہیں۔ اچٹتی ہوئی کوئی ایک آدھ بات سنی سنائی پہنچاتے ہیں اور وہ ایک جو آسمان سے چھپے چھپائے سن لی تو سو جھوٹ اس میں ملاکر کاہنوں کے کان میں ڈالدی۔ انہوں نے اپنی طرف سے پھر بہت سی باتیں شامل کرکے لوگوں میں ڈینگیں ماردیں۔ اب ایک آدھ بات تو سچی نکلی لیکن لوگوں نے ان کی اور سو جھوٹی باتیں بھی سچی مان لیں اور تباہ ہوئے۔ بخاری شریف میں ہے کہ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا حضور کبھی کبھی تو ان کی کوئی بات کھری بھی نکل آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ وہی بات ہوتی ہے جو جنات آسمان سے اڑا لاتے ہیں اور ان کے کان میں کہہ کر جاتے ہیں پھر اسکے ساتھ جھوٹ اپنی طرف سے ملاکر کہہ دیتے ہیں صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے با ادب اپنے پر جھکا دیتے ہیں۔ ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر بجائی جاتی ہو جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوتی ہے تو آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ رب کا کیا حکم صادر ہوا ہے ؟ دوسرے جواب دیتے ہیں کہ رب نے یہ فرمایا اور وہ عالی شان اور بہت بڑی کبرائی والا ہے۔ کبھی کبھی امر الہی سے چوری چھپے سننے والے کسی جن کے کان میں بھنک پڑجاتی ہے جو اس طرح ایک پر ایک پر ہو کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ راوی حدیث حضرت سفیان نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھیلاکر اس پر دوسرا ہاتھ اس طرح رکھ کر انہیں ہلاکر بتایا کہ اس طرح۔ اب اوپر والا نیچے والے کو اور وہ اپنے سے نیچے والے کو وہ بات بتلا دیتا ہے یہاں تک کہ جادوگر اور کاہن کو وہ پہنچادیتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات پہنچاتے اس سے پہلے شعلہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس کے پہلے ہی وہ پہنچادیتے ہیں اس میں کاہن و جادوگر اپنے سو جھوٹ شامل کر کے مشہور کرتا ہے چونکہ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ سب باتوں کو ہی سچا سمجھنے لگتے ہیں۔ ان تمام احایث کا بیان آیت ( حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23؀ ) 34۔ سبأ :23) کی تفسیر میں آئے گا۔ انشاء اللہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرشتے آسمانی امر کی بات چیت بادلوں پر کرتے ہیں جسے شیطان سن کر کاہنوں اور وہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کافر شاعروں کی اتباع گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ عرب کے شاعروں کا دستور تھا کسی کی مذمت اور ہجو میں کچھ کہہ ڈالتے تھے لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہوجاتی تھی اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓ کی ایک جماعت کیساتھ عرج میں جا رہے تھے راستے میں ایک شاعر شعر خوانی کرتے ہوئے ملا۔ آپ نے فرمایا اس شیطان کو پکڑ لو یا فرمایا روکو۔ تم میں سے کوئی شخص خون اور پیپ سے اپنا پیٹ بھرلے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے اپنا پیٹ بھرے۔ انہیں ہر جنگل کی ٹھوکریں کھاتے کسی نے نہیں دیکھا ؟ ہر لغو میں یہ گھس جاتے ہیں۔ کلام کے ہر فن میں بولتے ہیں۔ کبھی کسی کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ کبھی کسی کی مذمت میں آسمان و زمین سر پر اٹھاتے ہیں جھوٹی خوشامد جھوٹی برائیاں گھڑی ہوئی بدیاں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ یہ زبان کے بھانڈ ہوتے ہیں لیکن کام کے کاہل ایک انصاری اور ایک دوسری قوم کے شخص نے ہجو کا مقابلہ کیا جس میں دنوں کے قوم کے بڑے بڑے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ پس اس آیت میں یہی ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے گمراہ لوگ ہیں۔ وہ وہ باتیں بکا کرتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی کیا نہ ہو۔ اسی لئے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی شاعر نے نے اپنے شعر میں کسی ایسے گناہ کا اقرار کیا ہو جس پر حد شرع واجب ہوتی ہو تو آیا وہ حد اس پر جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ دونوں طرف علماء گئے۔ واقعی وہ فخر و غرور کے ساتھ ایسی باتیں بک دیتے ہیں کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا حالانکہ نہ کچھ کیا ہو اور نہ ہی کرسکتے ہوں۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت نعمان بن عدی بن فضلہ کو بصرے کے شہر یسان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ وہ شاعر تھے ایک مرتبہ اپنے شعروں میں کہا کہ کیا حسینوں کو یہ اطلاع نہیں ہوئی کہ ان کا محبوب یسان میں ہے جہاں ہر وقت شیشے کے گلاسوں میں دور شراب چل رہا ہے اور گاؤں کی بھولی لڑکیوں نے گانے اور ان کے رقص وسرور مہیا ہیں ہاں اگر میرے کسی دوست سے ہوسکے تو اس بڑے اور بھرے ہوئے جام مجھے پلائے لیکن ان سے چھوٹے جام مجھے سخت ناپسند ہیں۔ اللہ کرے امیر المومنین کو یہ خبر نہ پہنچے ورنہ برا مانیں گے اور سزادیں گے۔ یہ اشعار سچ مچ حضرت امیرالمومنین ؓ تک پہنچ گئے آپ سخت ناراض ہوئے اور اسی وقت آدمی بھیجا کہ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کیا۔ اور آپ نے ایک خط بھیجا جس میں بسم اللہ کے بعد حم کی تین آیتیں ( الیہ المصیر ) تک لکھ کر پھر تحریر فرمایا کہ تیرے اشعار سے مجھے سخت رنج ہوا۔ میں تجھے تیرے عہدے سے معزول کرتا ہوں۔ چناچہ اس خط کو پڑھتے ہی حضرت نعمان دربار خلافت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ امیر المومنین واللہ نہ میں نے کبھی شراب پی نہ ناچ رنگ و گانا بجانا دیکھا، نہ سنا۔ یہ تو صرف شاعرانہ ترنگ تھی۔ آپ نے فرمایا یہی میرا خیال ہے لیکن میری تو ہمت نہیں پڑتی کہ ایسے فحش گو شاعر کو کوئی عہدہ دو۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ کے نزدیک بھی شاعر اپنے شعروں میں کسی جرم کے اعلان پر اگرچہ وہ قابل حد ہو تو حد نہیں لگائی جائے گی اس لئے کہ وہ جو کہتے ہیں سو کرتے نہیں ہاں وہ قابل ملامت اور لائق سرزنش ضرور ہیں۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھرلینے سے بدتر ہے۔ مطلب یہ کہ رسول کریم ﷺ نہ تو شاعر ہیں، نہ ساحر، نہ کاہن، نہ مفتری ہیں۔ آپ کا ظاہر حال ہی آپ کے ان عیوب سے براءت کا بہت بڑا عادل گواہ ہے جیسے فرمان ہے کہ تو ہم نے انہیں شعر گوئی سکھائی ہے نہ اس کے لائق ہے یہ تو صرف نصیحت اور قرآن مبین ہے۔ اور آیت میں ہے یہ رسول کریم کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں تم میں ایمان کی کمی ہے یہ کسی کاہن کا قول نہیں۔ تم میں نصیحت ماننے کا مادہ کم ہے یہ تو رب العلمین کی اتاری ہوئی کتاب ہے اس سورت میں بھی یہی فرمایا گیا کہ یہ رب العلمین کی طرف سے اتری ہے۔ روح الامین نے تیرے دل پر نازل فرمائی ہے عربی زبان میں ہے اس لیے کہ تو لوگوں کو آگاہ کردے اسے شیاطین لے کر نہیں آئے نہ یہ ان کے لائق ہے نہ ان کی بس کی بات ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ کردئیے گئے ہیں۔ جو جھوٹے مفتری اور بد کردا ہوتے ہیں ان کے پاس شیاطین آتے ہیں جو اچٹتی باتیں سن سناکر ان کے کانوں میں آکر ڈال جاتے ہیں۔ محض جھوٹ بولنے والے یہ خود ہوتے ہیں شاعروں کی پشت پناہی اوباشوں کا کام ہے وہ تو ہر وادی میں سرگرداں ہوتے ہیں زبانی باتیں بناتیں ہیں عمل سے کورے رہتے ہیں۔ اس کے بعد جو فرمان ہے اسکا شان نزول یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت جس میں شاعروں کی مذمت ہے جب اتری تو دربار رسول کے شعراء حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن مالک ؓ روتے ہوئے دربار نبی ﷺ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ شاعروں کی تو یہ گت بنی اور ہم بھی شاعر ہیں اسی وقت آپ نے یہ دوسری آیت تلاوت فرمائی کہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے تم ہو ذکر اللہ بکثرت کرنے والے تم ہو مظلوم ہو کر بدلہ لینے والے تم ہو پس تم ان سے مسثنیٰ ہو ( ابن ابی حاتم وغیرہ )۔ ایک روایت میں حضرت کعب کا نام ہے ایک روایت میں صرف عبداللہ کی اس شکایت پر کہ یارسول اللہ ﷺ شاعر تو میں بھی ہوں اس دوسری آیت کا نازل ہونا مروی ہے لیکنے یہ قابل نظر۔ اس لئے کہ یہ سورت مکیہ ہے شعراء انصار جتنے بھی تھے وہ سب مدینے میں تھے پھر ان کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا یقینا محل غور ہوگا اور جو حدیثیں بیان ہوئیں وہ مرسل ہیں اس وجہ سے اعتماد نہیں ہوسکتا ہے یہ آیت کا نازل بیشک استثناء کے بارے میں ہے اور صرف یہی انصاری شعراء ؓ ہی نہیں بلکہ اگر کسی شاعر نے اپنی جاہلیت کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی اشعار کہے ہوں اور پھر مسلمان ہوجائے توبہ کرلے اور اس کے مقابلے میں ذکر اللہ بکثرت کرے وہ بیشک اس برائی سے الگ ہے۔ حسنات سیات کو دور کردیتی ہے جب کہ اس نے مسلمان کو اور دین حق کو برا کہا تھا وہ برا تھا لیکن جب اس نے ان کی مدح کی تو برائی بھلائی سے بدل گئی۔ جیسے حضرت عبداللہ بن زبعری ؓ نے اسلام سے پہلے حضور کی ہجو بیان کی تھی لیکن اسلام کے بعد بڑی مدح بیان کی اور اپنے اشعار میں اس ہجو کا عذر بھی بیان کرتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت شیطانی پنجہ میں پھنسا ہوا تھا اسی طرح ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب باوجود آپ کا چچا زاد بھائی ہونے کے آپ کا جانی دشمن تھا اور بہت ہجو کیا کرتا تھا جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ دنیا بھر میں حضور ﷺ سے زیادہ محبوب انہیں کوئی نہ تھا۔ اکثر آپ کی مدح کیا کرتے تھے اور بہت ہی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ صحیح مسلم میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو سفیان صخر بن حرب جب مسلمان ہوا تو حضور ﷺ سے کہنے لگا مجھے تین چیزیں عطا فرمائیے ایک تو یہ کہ میرے لڑکے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجیے۔ دوسرے مجھے کافروں سے جہاد کے لئے بھیجیے اور میرے ساتھ کوئی لشکر دیجیے تاکہ جس طرح کفر میں مسلمانوں سے لڑا کرتا تھا اب اسلام میں کافروں کی خبر لوں۔ آپ نے دونوں باتیں قبول فرمائیں ایک تیسری درخواست بھی کی جو قبول کی گئی۔ پس ایسے لوگ اس آیت کے حکم سے اس دوسری آیت سے الگ کرلئے گئے۔ ذکر اللہ خواہ وہ اپنے شعروں میں بکثرت کریں خواہ اور طرح اپنے کلام میں یقینا وہ اگلے گناہوں کا بدلہ اور کفارہ ہے۔ اپنی مظلومی کا بدلہ لیتے ہیں۔ یعنی کافروں کی ہجو کا جواب دیتے ہیں۔ خود حضور ﷺ نے حضرت حسان سے فرمایا تھا ان کفار کی ہجو کرو جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔ حضرت کعب بن مالک شاعر نے جب شعراء کی برائی قرآن میں سنی تو حضور سے عرض کیا آپ نے فرمایا تم ان میں نہیں ہو مومن تو جس طرح اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے۔ واللہ تم لوگوں کے اشعار تو انہیں مجاہدین کے تیروں کی طرح چھید ڈالتے ہیں۔ پھر فرمایا ظالموں کو اپنا انجام ابھی معلوم ہوجائے گا۔ انہیں عذر معذرت بھی کچھ کام نہ آئیگی۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں ظالم سے بچو اس سے میدان قیامت میں اندھیروں میں رہ جاؤ گے۔ آیت عام ہے خواہ شاعر ہوں خواہ شاعر نہ ہوں سب شامل ہیں۔ حضرت حسن نے ایک نصرانی کے جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ آپ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ روم میں جب حضرت فضالہ بن عبید تشریف لے گئے اس وقت ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جب انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد بیت اللہ کی بربادی کرنے والے ہیں کہا گیا کہ اس سے مراد اہل مکہ ہیں، یہ بھی مروی ہے کہ مراد مشرک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت عام ہے سب پر مشتمل ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میرے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے انتقال کے وقت اپنی وصیت صرف دو سطروں میں لکھی۔ جو یہ تھی بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ہے وصیت ابوبکر بن ابی قحافہ کی۔ اس وقت کی جب کہ وہ دنیا چھوڑ رہے تھے۔ جس وقت کافر بھی مومن ہوجاتا، فاجر بھی توبہ کرلیتا تب کاذب کو بھی سچا سمجھتا ہے میں تم پر اپنا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بنا جارہا ہوں۔ اگر وہ عدل کرے تو بہت اچھا اور میرا گمان بھی ان کے ساتھ یہی ہے اور اگر وہ ظلم کرے اور کوئی تبدیلی کر دے تو میں غیب نہیں جانتا۔ ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں۔ سورة شعراء کی تفسیر بحمد اللہ ختم ہوئی۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 227 اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا ”یہ البتہ استثنائی حکم ہے۔ کوئی شاعر اگر حقیقی مؤمن ہو اور اعمال صالحہ پر کاربند ہونے کے ساتھ ساتھ کثرت ذکر اللہ پر بھی مداومت کرے تو وہ یقیناً مذکورہ بالا مذمت سے مستثنیٰ ہوگا اور اس کا کلام بھی خیر اور بھلائی کا باعث بنے گا۔ اس سلسلے میں حضرت حسانّ بن ثابت رض کی مثال دی جاسکتی ہے جو دربار نبوی ﷺ کے شاعر تھے۔ عرب میں اس وقت شاعری کا بہت رواج تھا اور مشرکین کے شعراء ہجویہ اشعار کے ذریعے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ چناچہ اس میدان میں ان کے جواب کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ فریضہ حضرت حسانّ بن ثابت رض نے انجام دیا۔ اس لحاظ سے آپ رض سب سے پہلے نعت گو شاعر بھی ہیں۔ البتہ شعراء کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ اس قدر جامع اور مبنی بر حقیقت ہے کہ استثنائی صورتوں میں بھی کہیں نہ کہیں ‘ کوئی نہ کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ چناچہ حضرت حسانّ بن ثابت رض کو اگرچہ دربار نبوی ﷺ کا شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور بطور صحابی بھی ان کا درجہ بہت بلند ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ رض مرد میدان نہیں تھے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر حضور ﷺ نے ان کو اس مکان پر بطور پہرے دارمتعین فرمایا تھا جہاں پر مسلمان خواتین کو رکھا گیا تھا۔ حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رض نے ایک یہودی کو مشکوک انداز میں اس مکان کے آس پاس پھرتے دیکھا تو انہوں نے حضرت حسان رض سے کہا کہ آپ جا کر اس شخص کو قتل کردیں۔ یہ سن کر حضرت حسان رض نے صاف معذرت کردی کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس پر حضرت صفیہ رض ایک لکڑی ہاتھ میں لے کر گئیں اور اس لکڑی سے یہودی کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کردیا۔ واپس آکر انہوں نے حضرت حسان رض ّ سے کہا کہ اب آپ جا کر اس یہودی کے ہتھیار وغیرہ اتار کرلے آئیں۔ اس پر انہوں رض نے جواب دیا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ وَّانْتَصَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ط ”یہ ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے اپنی زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ جیسے حضرت حسان بن ثابت رض کفار کی طرف سے حضور ﷺ کے خلاف کہے گئے ہجویہ اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور ﷺ کی طرف سے مدافعت کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے ان رض کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسانّ کے اشعار کفار کے خلاف مسلمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔ بہر حال ہرچیز کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلم ہے۔وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ”ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں اردو میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یعنی ابھی ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ‘ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب قرآن کا بیان کردہ بھیانک انجام ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوگا۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وذكروا الله كثيرا وانتصروا من بعد ما ظلموا وسيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون

سورة: الشعراء - آية: ( 227 )  - جزء: ( 19 )  -  صفحة: ( 376 )

Surah Shuara Ayat 227 meaning in urdu

بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور اس پر قائم رہو۔ ہم
  2. اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی
  3. (یہ تمہارے مددگار نہیں ہیں) بلکہ خدا تمہارا مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر
  4. کیا یہ (کافر) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس (جان نکالنے)
  5. (یعنی) خدا کا رستہ جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے۔ دیکھو
  6. (اہلِ) روم مغلوب ہوگئے
  7. (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے
  8. کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن ان سب (کے اُٹھنے) کا وقت ہے
  9. اور تم (اُس کو) نہ زمین میں عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں اور نہ
  10. اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Shuara with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Shuara mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shuara Complete with high quality
surah Shuara Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Shuara Bandar Balila
Bandar Balila
surah Shuara Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Shuara Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Shuara Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Shuara Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Shuara Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Shuara Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Shuara Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Shuara Fares Abbad
Fares Abbad
surah Shuara Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Shuara Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Shuara Al Hosary
Al Hosary
surah Shuara Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Shuara Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, November 17, 2024

Please remember us in your sincere prayers