Surah Nisa Ayat 23 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
[ النساء: 23]
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسب، سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، ربائب ( مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں ) بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے۔ ان کے علاوہ باپ کی منکوحہ ( جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے ) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔ محرمات نسبی کی تفصیل! أُمَّهَاتٌ ( مائیں ) میں ماؤں کی مائیں ( نانیاں ) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں ( دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک ) شامل ہیں۔ بَنَاتٌ ( بیٹیاں ) میں پوتیاں، نواسیاں اور پوتیوں،نواسیوں کی بیٹیاں ( نیچے تک ) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی، بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ بنت شرعی نہیں ہے۔ پس جس طرح ” يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ “ ( اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے ) میں داخل نہیں اور بالا جماع وہ وارث نہیں۔ اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم ( ابن کثیر )۔ أَخَوَاتٌ ( بہنیں ) عینی ہوں یا اخیافی وعلاتی، عَمَّات ٌ( پھوپھیاں ) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیںخَالاتٌ( خالائیں ) اس میں ماں کی سب مونث اصول ( یعنی نانی دادی ) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کی بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ ( یا صلبی وفرعی ) شامل ہیں۔ بھانجیاں، اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ وبلاواسطہ یا صلبی وفرعی شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ: رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت ( یعنی دو سال ) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا تم سے پہلے یا بعد تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یاجس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائینگے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی ورضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں، اور اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا تایا بن جائیں گے اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہوں گے۔ قسم سوم سسرالی محرمات: بیوی کی ماں یعنی ساس ( اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے ) اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو، تب بھی اس کی ماں ( ساس ) سے نکاح حرام ہوگا، البتہ کسی عورت سے نکاح کرکے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ ( فتح القدیر ) رَبِيبَةٌ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام، بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فِي حُجُورِكُمْ ( وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں ) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے، بطور شرط کے نہیں ہے۔ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حَلِيلَةٌ کی جمع ہے یہ حل یحل ( اترنا ) سے فَعِيلَةٌ کے وزن پر بمعنی فَاعِلَةٍ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل ( جائے قیام ) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے۔ بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی ان کی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا۔ اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے مِنْ أَصْلابِكُمْ ( تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں ) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔ دو بہنیں ( رضاعی ہوں یا نسبی ) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے۔ البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظة: زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں ( ساس ) سے یا اس کی بیٹی سے ( جو دوسرے خاوند سے ہو ) زنا کر لے گا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی ( دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر ) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اول الذکر مسلک کی تائید بعض احادیث سے ہوتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں ؟ نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں، یہی مذہب ابوحنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے، امام شافعی سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لئے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے واللہ اعلم، ( صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں۔ (مترجم ) پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لئے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمد للہ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہوگئی امام مالک یہی فرماتے ہیں، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہوگئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے، امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو عبیدہ، ابو ثور بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت ام الفضل، حضرت ابن زبیر، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے بھی یہی مروی ہے بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے حضور ﷺ کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، حضرت عائشہ اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں، امام شافعی اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے ( مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے واللہ اعلم ) یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان آیت ( حولین کاملین ) کی تفسیر میں سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں ؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ( صحیح قول جمہور کا ہے واللہ اعلم۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے کے سبب اس کی ماں اس پر حرام ہوگئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہوگی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لئے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کرسکتا ہے حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی منقول ہے ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مرجائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کرسکتا ہے حضرت ابوبکر بن کنانہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہوگیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہوگئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کرلوں میں نے حضرت ابن عباس سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے یہ جائز ہے پھر میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو امیر معاویہ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چناچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے، حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر اور حضرت ابن عباس بھی اسی طرف گئے ہیں، حضرت معاویہ نے اس میں توقف فرمایا ہے شافعیوں میں سے ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چناچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کرلیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر حضرت ابن مسعود مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چناچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کردیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہوجاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے دے یا وہ عورت مرجائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لئے اسے ناپسند فرمایا، حضرت ابن مسعود، عمران بن حصین، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمد للہ امام ابن جریج فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لئے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہوچکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں، ( ٹھیک مسئلہ یہی ہے واللہ اعلم۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لئے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت میں ہے آیت ( ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا ) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بےبس نہ کرو، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کرلیجئے۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو ؟ ام المومنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے ؟ کہا ہاں۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں۔ مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو، بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں، یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں، حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مرگئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا حضرت علی سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کرلو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے، حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ نسبی نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم۔ حجور سے مراد گھر ہے جیسے کہ حضرت ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں حضرت عمر سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہوگی یا نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا اسے پسند نہیں کرتا، اس کی سند منقطع ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لئے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں، شیخ ابو عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں، حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے آیت ( دخلتم بہن ) سے مراد حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دئے جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے چھیڑ ہوجائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے ابن جریج نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہوگیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہوگئی۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہوجانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہوگی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے کسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( فلما قضی زید منہا وطرا زوجنکہا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم الخ، یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت زید کی بیوی سے نکاح کرلیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کردی اس پر یہ آیت اور آیت (وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ) 33۔ الأحزاب:4) اور آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا ) 33۔ الأحزاب:40) نازل ہوئیں یعنی بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے۔ تمہارے لئے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں آنحضرت ﷺ میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہوگی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت ﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہوچکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ ) 44۔ الدخان:56) یعنی وہاں موت نہیں آئے گی ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی، صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا حضرت فیروز فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو ( مسند احمد ) ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی میں بھی یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ممکن ہے کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے حضرت دیلمی نے رسول مقبول صلعم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو ( ابن مردویہ ) پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں ؓ یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چناچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے حضرت ابن مسعود سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے آیت ( اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) 4۔ النساء:24) یعنی وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں اس پر حضرت ابن مسعود نے فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے حضرت عثمان بن عفان سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا، حضرت امام مالک فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً علی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا حضرت الیاس بن عامر کہتے ہیں میں نے حضرت علی بن ابی طالب سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کرسکتے ہو، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی، اسے تو آزاد کردینے میں ہی سلامتی ہے، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں ( اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہوگی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لئے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لئے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ واللہ اعلم۔ مترجم ) یہ یاد رہے کہ حصرت علی سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حصرت عثمان سے مروی ہے چناچہ ابن مردونیہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کردیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آکر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہوچکے وہ ہوچکے حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے لونڈیوں کے لئے یہ حد نہیں، حضرت شعی بھی یہی فرماتے ہیں ابو عمرو فرماتے ہیں حضرت عثمان ؓ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے حضرت ابن عباس بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کرسکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لاسکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے بارے میں خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
وَاُمَّہٰتُ نِسَآءِکُمْ جن کو ہم ساس یا خوش دامن کہتے ہیں۔وَرَبَآءِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآءِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ز ربیبہبیوی کی اس لڑکی کو کہا جاتا ہے جو اس کے سابق شوہر سے ہو۔ اگر موجودہ شوہر اس بیوی سے تعلق زن و شو قائم ہونے کے بعد اس کو طلاق دے دے تو ربیبہ کو اپنے نکاح میں نہیں لاسکتا ‘ یہ اس کے لیے حرام ہے۔ لیکن اگر اس بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو قائم نہیں ہوا اور اسے طلاق دے دی تو پھر ربیبہ کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ اگر تم نے ان بیویوں کے ساتھ مقاربت نہ کی ہو تو پھر انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ ِ وَحَلَآءِلُ اَ بْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ لا جن کو ہم بہوئیں کہتے ہیں۔ اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ البتہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح میں کوئی حرج نہیں۔ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا۔ اب گڑے مردے تو اکھاڑے نہیں جاسکتے۔ لیکن آئندہ کے لیے یہ محرمات ابدیہ ہیں۔ اس میں رسول اللہ ﷺ نے اضافہ کیا ہے کہ جس طرح دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے اسی طرح خالہ بھانجی کو اور پھوپھی بھتیجی کو بھی بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ محرمات ابدیہ ہیں کہ جن کے ساتھ کسی حال میں ‘ کسی وقت شادی نہیں ہوسکتی۔ اب وہ محرمات بیان ہو رہی ہیں جو عارضی ہیں۔
حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم وأخواتكم وعماتكم وخالاتكم وبنات الأخ وبنات الأخت وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة وأمهات نسائكم وربائبكم اللاتي في حجوركم من نسائكم اللاتي دخلتم بهن فإن لم تكونوا دخلتم بهن فلا جناح عليكم وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم وأن تجمعوا بين الأختين إلا ما قد سلف إن الله كان غفورا رحيما
سورة: النساء - آية: ( 23 ) - جزء: ( 4 ) - صفحة: ( 81 )Surah Nisa Ayat 23 meaning in urdu
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (ا نہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) آگ (کی خندقیں) جس میں ایندھن (جھونک رکھا) تھا
- اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی
- اور اس دن تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں
- جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض
- اور جب خدا سے عہد واثق کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی
- یہی لوگ ہیں جن کے لئے بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں بھی وہ
- اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا
- (اے محمدﷺ) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت
- تم کیوں (لذت کے ارادے سے) لونڈوں کی طرف مائل ہوتے اور (مسافروں کی) رہزنی
- (یعنی) میوے اور ان کا اعزاز کیا جائے گا
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers