Surah Jasiah Ayat 23 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾
[ الجاثية: 23]
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
Surah Jasiah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) پس وہ اسی کو اچھا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس اچھا اور اسی کو برا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس برا قرار دیتا ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی نفسانی خواہش کو ترجیح دیتا یا اپنی عقل کو اہمیت دیتا ہے۔ حالانکہ عقل بھی ماحول سے متاثر یا مفادات کی اسیر ہوکر، خواہش نفس کی طرح، غلط فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایک معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں، جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت اور برہان کے بغیر اپنی مرضی کے دین کو اختیار کرتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے ایسا شخص مراد ہے جو پتھر کو پوجتا تھا، جب اسے زیادہ خوب صورت پتھر مل جاتا، تو وہ پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے کو معبود بنالیتا۔ ( فتح القدیر )۔
( 2 ) یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ اہل علم کا حال ہے۔ ہوتے وہ گمراہ ہیں، موقف ان کا بے بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن ( ہم چوما دیگرے نیست ) کے گھمنڈ میں وہ اپنے ( دلائل ) کو ایسا سمجھتے ہیں گویا آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ اور یوں علم و فہم رکھنے کے باوجود وہ گمراہ ہی نہیں ہوتے، دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا الْعلمِ الضَّالِّ ، وَالْفَهْمِ السَّقيِمِ وَالْعَقْلِ الزَّائِغِ۔
( 3 ) جس سے اس کے کان وعظ و نصیحت سننےس ے اور اس کا دل ہدایت کے سمجھنے سے محروم ہو گیا۔
( 4 ) چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔
( 5 ) جیسے فرمایا «مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلا هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ» ( الأعراف: 186 )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اصل دین چار چیزیں ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں جیسے اور آیت میں ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہوجائیں۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت ابوذر فرماتے ہیں چار چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال حرام حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں اس کے حلال کو حلال اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آجانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے۔ حضرت ابو القاسم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہوسکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے یہ حدیث غریب ہے۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو۔ طبرانی میں ہے کہ حضرت تمیم داری رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو اللہ بنائے ہوئے ہیں۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا جس سے دل رکا چھوڑ دیا۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے۔ حضرت امام مالک اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گذرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کردیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آگئی پھر اسے گمراہ کیا۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں۔ اس کے کانوں پر مہر ہے نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں۔ اس کے دل پر مہر ہے ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ01806 ) 7۔ الأعراف:186) جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 23 { اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُ } ” کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟ “ اس سے قبل یہ مضمون سورة الفرقان کی آیت 43 میں بھی آچکا ہے۔ یہاں اس کا اعادہ دراصل زیر مطالعہ آٹھ سورتوں سورۃ الزمر تا سورة الأحقاف کے مرکزی مضمون کے سیاق وسباق میں ہوا ہے۔ چناچہ آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مضمون کے ذیلی عنوانات کی ترتیب کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے۔ ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی چار سورتوں الزمر تا الشوریٰ میں ” توحید ِعملی “ کا مضمون ایک خاص ترتیب اور تدیج کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سورة الزمر میں تکرار کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے : { قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ۔ ” اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے : مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے “۔ اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ کر کسی اور کی اطاعت کرنا شرک ہے اور مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت کرنا بھی شرک ہے جس سے خالق کی معصیت کا ارتکاب ہوتا ہو۔ اس کے بعد سورة المومن میں توحید عملی کے داخلی پہلو دعا کو اجاگر کیا گیا ہے اور بار بار حکم دیا گیا ہے : { فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } کہ اللہ سے دعا کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس طرح ان دونوں سورتوں میں توحید عملی کا مضمون اپنے خارجی اور داخلی دونوں پہلوئوں سے ایک فرد کی حد تک مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد اگلی دو سورتوں سورة حٰمٓ السجدۃ اور سورة الشوریٰ میں توحید عملی کو فرد سے اجتماعیت کی طرف بڑھایا گیا ہے۔ چناچہ سورة حٰمٓ السجدۃ میں توحید کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس دعوت کی فضیلت کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ” اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں ! “ اس دعوت کا ذریعہ medium چونکہ قرآن ہے اس لیے اسی نسبت سے سورة حٰمٓ السجدۃ میں قرآن کی عظمت کا ذکر تکرار کے ساتھ چھ مرتبہ آیا ہے۔ اس کے بعد سورة الشوریٰ کا مرکزی مضمون اقامت دین ہے۔ تدریج کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں ہوگی کہ جو لوگ توحید کی دعوت پر لبیک کہیں انہیں منظم کر کے ایک قوت میں تبدیل کیا جائے۔ پھر یہ سب لوگ مل کر باطل کے تسلط کو ختم کرنے اور معاشرے میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس طرح ان چار سورتوں میں ” توحید عملی “ کے مضمون کو فرد سے لے کر ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ اجتماعی نظام کی سطح تک مکمل کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورة الزخرف اور سورة الجاثیہ میں اس مضمون توحید فی الاطاعت کے تقابل کے طور پر شرک فی الاطاعت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سورة الزخرف میں اجتماعیت کی بلند ترین سطح یعنی حاکمیت کی سطح کے شرک کا حوالہ ہے جبکہ سورة الجاثیہ میں خصوصی طور پر آیت زیر مطالعہ میں انفرادی سطح کے شرک کا ذکر ہے۔ جہاں تک اجتماعیت کی سطح پر شرک کا تعلق ہے اس کو یوں سمجھئے کہ ” انسانی حاکمیت “ کا تصور شرک کی بد ترین شکل ہے ‘ کیونکہ حاکم مطلق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ سورة يوسف میں ہم پڑھ چکے ہیں : { اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط } آیت 40 کہ اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ اس حوالے سے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کا یہ اعلان : { وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ } ” اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں “ اور سورة الكهف کی آیت 26 کے یہ الفاظ { وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا۔ ” اور وہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو بھی “ اپنے معانی و مفہوم میں بہت واضح ہیں۔ اب ایسے واضح احکام کے بعد اگر کوئی انسان ” حاکمیت مطلق “ کا دعویٰ کرے تو یہ گویا خدائی کا دعویٰ ہے اور یوں یہ شرک کی بد ترین شکل ہے۔ اسی شرک کا علمبردار نمرود تھا اور اسی جرم کا مرتکب فرعون بھی ہوا تھا۔ سورة الزخرف میں فرعون کے نعرہ شرک کا ذکر یوں آیا ہے : { وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ” اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا ‘ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اور یہ تمام نہریں میرے حکم کے تحت نہیں بہتی ہیں ؟ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ “ شرک فی الاطاعت کا دوسرا پہلو انفرادی ہے ‘ جس کا ذکر آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ اس آیت میں ایک ایسے شخص کی مثال بیان ہوئی ہے جس نے اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہش پر چلنے کا طرز عمل اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے نفس کے تقاضوں اور اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حلال و حرام کی تمیز روا نہیں رکھتا۔ ایسے شخص نے اپنے عمل سے گویا ثابت کردیا ہے کہ اس کا معبود اللہ نہیں ‘ بلکہ اس کا نفس ہے۔ اور وہ حقیقت میں اللہ کا نہیں اپنے نفس کا ” بندہ “ ہے۔ حضور ﷺ نے ایسے ہی شخص کو درہم و دینار کا بندہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ 1 ” ہلاک ہوجائے درہم و دینار کا بندہ “۔ یہ دراصل وہ شخص ہے جو دولت کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی تمیز کو بالکل پس پشت ڈال چکا ہے۔ اب اس کے والدین نے اس کا نام ” عبدالرحمن “ ہی کیوں نہ رکھا ہو ‘ لیکن اس کے عمل سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں وہ ” عبدالدینار “ ہے۔ بہر حال سورة الزخرف میں شرک فی الاطاعت کا ذکر معاشرے کی بلند ترین سطح یعنی ریاست اور حاکمیت کی سطح پر ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت کی اس آیت میں اس کی دوسری انتہا یعنی انفرادی سطح کے شرک کا بیان ہے۔ شرک کی باقی تمام صورتیں ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہیں۔ آیت میں استفسار کے اسلوب سے زور کلام خاص طور پر زیادہ ہوگیا ہے کہ کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کی عبرتناک حالت پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟ { وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ } ” اور اللہ نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اس کے علم کے باوجود “ ہوسکتا ہے وہ کوئی بہت بڑا عالم ہو یا اعلیٰ پائے کا محقق ہو یا کوئی نامور سائنسدان ہو ‘ مگر جس انسان نے اپنے نفس کا بندہ بن کر رہنا قبول کرلیا ہو اس کی علمی اہلیت ‘ تحقیقی استعداد اور سائنٹیفک اپروچ اسے نہ تو اللہ کی اطاعت کی راہ دکھا سکتی ہے ‘ اور نہ ہی اس کے دل کو ایمان اور اللہ کی معرفت کے نور سے منور کرسکتی ہے۔ ایسے بدقسمت لوگوں پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے جاتے ہیں : { خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز } البقرۃ : 7۔ سورة البقرة کی اس آیت کے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ دیکھئے یہاں بھی آگئے ہیں : { وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً } ” اور اللہ نے اس کی سماعت اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ “ اس مہر اور اس پردے کی کیفیت کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو آج کے سائنسدانوں کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے سات سمندروں کے پانیوں کو کھنگال مارا ہے ‘ روئے ارضی کے ذرّے ذرّے کی چھان پھٹک وہ کرچکے ہیں۔ خلا کی وسعتوں کے اندر دور دور تک وہ جھانک آئے ہیں۔ غرض سائنسی کرشموں کے سبب انہوں نے کائنات کے بڑے بڑے رازوں کو طشت ازبام کردیا ہے ‘ لیکن اس پوری کائنات میں اگر انہیں نظر نہیں آیا تو ایک اللہ نظر نہیں آیا ! مذکورہ ” پردہ “ ان کی آنکھوں پر اس قدر دبیز ہوچکا ہے کہ اس پوری کائنات میں کائنات کے خالق کا انہیں کہیں سراغ نہیں ملا۔ { فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ } ” تو اللہ کے اس فیصلے کے بعداب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے ‘ تو کیا تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ “
أفرأيت من اتخذ إلهه هواه وأضله الله على علم وختم على سمعه وقلبه وجعل على بصره غشاوة فمن يهديه من بعد الله أفلا تذكرون
سورة: الجاثية - آية: ( 23 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 501 )Surah Jasiah Ayat 23 meaning in urdu
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- عقل والوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے
- اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے
- (یہ ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر
- انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے
- اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو
- (حقیقت حال) یوں (تھی) اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم کو سب کی
- کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو
- اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ہلاک کر دیا) اور اُن کے پاس
- اور ان کو اور ان کی قوم کو مصیبت عظیمہ سے نجات بخشی
- کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے۔ وہی اپنے بندوں
Quran surahs in English :
Download surah Jasiah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Jasiah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Jasiah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers