Surah Hud Ayat 24 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾
[ هود: 24]
دونوں فرقوں (یعنی کافرومومن) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
Surah Hud Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں، دونوں کا تذکرہ فرمایا۔ اب اس میں دونوں کی مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ فرمایا، ایک کی مثال اندھے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی دیکھنے اور سننے والے کی طرح۔ کافر دنیا میں حق کا روئے زیبا دیکھنے سے محروم اور آخرت میں نجات کے راستہ سے بےبہرہ، اسی طرح حق کے دلائل سننے سے بےبہرہ ہوتا ہے، اسی لئے ایسی باتوں سے محروم رہتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا اور حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خیر کی پیروی کتا ہے، دلائل کو سنتا اور ان کے ذریعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام نفی کے لیے ہے۔ یعنی دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔«لا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ» ( الحشر:20 ) ” جنتی دوزخی برابر نہیں ہو سکتے جنتی تو کامیاب ہونے والے ہیں “، ایک اور مقام پر اسے اس طرح بیان فرمایا ” اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اندھیرے اور روشنی، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندے اور مردے برابر نہیں “۔ ( سورہ فاطر:۱۹-۲۰ )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ بروں کے ذکر کے بعد اچھے لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے، جن کے جسمانی اعضا فرماں برداری کرنے والے تھے، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے۔ بلند وبالا بالا خانے، بچھے بچھائے تخت، چکھے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے ابھرے فرش، خوبصورت بیویاں، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا، نہ بیماری، نہ غفلت، نہ رفع حاجت ہوگی، نہ تھوک، نہ ناک مشک، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا۔ اور سنتے میں ہے کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے۔ وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا۔ اس کے برخلاف مومن سمجھ دار، ذکی، عاقل، عالم، دیکھتا، بھالتا، سوچتا، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا۔ بھلائی لے لیتا، برائی چھوڑ دیتا، دلیل اور شبہ میں فرق کرلیتا اور باطل سے بچتا، حق کو مانتا۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں ؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے۔ ارشاد ہے ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20 ) 59۔ الحشر:20) دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بلکل کامیاب ہیں اور آیت میں ہے اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، اندھیرا اور اجالا برابر نہیں، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا۔ تو تو صرف آ گاہ کردینے والا ہے۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہوچکا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے ؟ کیا تم اس مثال سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ؟اب اگلے چھ رکوع انباء الرسل پر مشتمل ہیں۔ ان میں انہی چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر ہم سورة الأعراف میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ یعنی حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ یہ چھ رسول ہیں جن کا ذکر قرآن حکیم میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ اس تکرار کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب ان سب رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ جس خطے میں یہ رسول اپنے اپنے زمانے میں مبعوث ہوئے اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہم سورة الأعراف میں پڑھ آئے ہیں۔ یہاں ان میں سے چیدہ چیدہ معلومات ذہن میں پھر سے تازہ کرلیں۔ اگلے صفحے پر جو نقشہ دیا گیا ہے یہ گویا ” ارض القرآن “ کا نقشہ ہے۔ قرآن مجید میں جن رسولوں کے حالات کا تذکرہ ہے وہ سب کے سب اسی خطے کے اندر مبعوث کیے گئے۔ نقشے میں جزیرہ نمائے عرب کے دائیں طرف خلیج فارس اور بائیں طرف بحیرۂ قلزم بحیرۂ احمر ہے ‘ جو اوپر جا کر خلیج عقبہ اور خلیج سویز میں تقسیم ہوجاتا ہے۔نقشے پر اگر خلیج فارس سے اوپر سیدھی لکیر کھینچی جائے اور خلیج عقبہ کے شمالی کونے سے بھی ایک لکیر کھینچی جائے تو جہاں یہ دونوں لکیریں آپس میں ملیں گی ‘ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر حضرت نوح کی قوم آباد تھی۔ یہیں سے اوپر شمال کی جانب ارارات کا پہاڑی سلسلہ ہے ‘ جس میں کوہ جودی پر آپ کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سیلاب کی صورت میں حضرت نوح کی قوم پر عذاب آیا ‘ جس سے پوری قوم ہلاک ہوگئی۔ اس وقت تک پوری نسل انسانی بس یہیں پر آباد تھی ‘ چناچہ سیلاب کے بعد نسل انسانی حضرت نوح کی اولاد ہی سے آگے چلی۔ حضرت نوح کے ایک بیٹے کا نام سام تھا ‘ وہ اپنی اولاد کے ساتھ عراق کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ اس علاقے میں ان کی نسل سے بہت سی قومیں پیداہوئیں۔ انہیں میں سے ایک قوم اپنے مشہور سردار ” عاد “ کے نام کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ قوم عاد جزیرہ نمائے عرب کے جنوب میں احقاف کے علاقے میں آباد تھی۔ اس قوم میں جب شرک عام ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے بہت سے نبی بھیجے۔ ان انبیاء کے آخر میں حضرت ہود ان کی طرف رسول مبعوث ہو کر آئے۔ آپ کی دعوت کو رد کر کے جب یہ قوم بھی عذاب الٰہی کی مستحق ہوگئی تو حضرت ہود اپنے اہل ایمان ساتھیوں کو ساتھ لے کر عرب کے وسطی علاقے حجر کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہاں پھر ان لوگوں کی نسل آگے بڑھی۔ ان میں سے قوم ثمود نے خصوصی طور پر بہت ترقی کی۔ اس قوم کا نام بھی ثمود نامی کسی بڑی شخصیت کے نام پر مشہور ہوا۔ یہ لوگ فن تعمیر کے بہت ماہر تھے۔ چناچہ انہوں نے میدانی علاقوں میں بھی عالی شان محلات تعمیر کیے اور Granite Rocks پر مشتمل انتہائی سخت پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت مکانات بھی بنائے۔ اس قوم کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے۔ یہ تینوں اقوام قوم نوح قوم عاد اور قوم ثمود حضرت ابراہیم کے زمانے سے پہلے کی ہیں۔دوسری طرف عراق میں جو سامئ النسل لوگ آباد تھے ان میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے۔ آپ کا تذکرہ قرآن میں کہیں بھی ” انباء الرسل “ کے انداز میں نہیں کیا گیا۔ یہاں سورة هود میں بھی آپ کا ذکر ” قصص النبیین “ کی طرز پر آیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم نے عراق سے ہجرت کی اور بہت بڑا صحرائی علاقہ عبور کر کے شام چلے گئے۔ وہاں آپ نے فلسطین کے علاقے میں اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو آباد کیا جبکہ اس سے پہلے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو آپ مکہ میں آباد کرچکے تھے۔ حضرت لوط آپ کے بھتیجے تھے۔ شام کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ حضرت لوط کو اللہ تعالیٰ نے رسالت سے نواز کر عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ شہر بحیرۂ مردار Dead Sea کے کنارے پر آباد تھے۔ لہٰذا قوم ثمود کے بعد انباء الرسل کے انداز میں حضرت لوط ہی کا ذکر آئے گا۔ حضرت ابراہیم کی جو اولاد آپ کی تیسری بیوی قطورہ سے ہوئی وہ خلیج عقبہ کے مشرقی علاقے میں آباد ہوئی۔ اپنے کسی مشہور سردار کے نام پر اس قوم اور اس علاقے کا نام ” مدین “ مشہور ہوا۔ اس قوم کی طرف حضرت شعیب کو مبعوث کیا گیا۔ انباء الرسل کے اس سلسلے میں حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر آتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو مصر میں مبعوث کیا گیا جو جزیرہ نمائے عرب سے باہر جزیرہ نمائے سینا Senai Peninsula کے دوسری طرف واقع ہے۔ آپ کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوئی تھی ‘ جو حضرت یوسف کی وساطت سے فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہوئے تھے۔ سورۂ یوسف میں اس ہجرت کی پوری تفصیل موجود ہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء و رسل دنیا کے مختلف علاقوں میں مبعوث فرمائے۔ ان تمام پیغمبروں کی تاریخ بیان کرنا قرآن کا موضوع نہیں ہے۔ قرآن تو کتاب ہدایت ہے اور انبیاء ورسل کے واقعات بھی ہدایت کے لیے ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ اس ہدایت کے تمام پہلو کسی ایک رسول کے قصے میں بھی موجود ہوتے ہیں مگر مذکورہ چھ رسولوں کا ذکر بار بار اس لیے قرآن میں آیا ہے کہ ان کے ناموں سے اہل عرب واقف تھے اور ان کی حکایات و روایات میں بھی ان کے تذکرے موجود تھے۔
مثل الفريقين كالأعمى والأصم والبصير والسميع هل يستويان مثلا أفلا تذكرون
سورة: هود - آية: ( 24 ) - جزء: ( 12 ) - صفحة: ( 224 )Surah Hud Ayat 24 meaning in urdu
اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تم (اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور
- (القصہ یوں ہی ہوا) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے (اور) کہنے لگے کہ ہم
- اور ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے۔ جدھر وہ (عبادت کے وقت)
- اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول خدا تمہارے لئے مغفرت مانگیں تو
- مومنو! اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے امر فارق پیدا کردے
- (اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار
- اور جو شخص محنت کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے محنت کرتا ہے۔
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل
- اور اگر وہ باز آجائیں تو خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
- اگر ہم اس کے بعد کہ خدا ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے
Quran surahs in English :
Download surah Hud with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hud mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hud Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers