Surah Saad Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ﴾
[ ص: 25]
تو ہم نے ان کو بخش دیا۔ اور بےشک ان کے لئے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ مقام ہے
Surah Saad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حضرت داود ( عليه السلام ) کا یہ کام کیا تھا جس پر انہیں کوتاہی کا اور توبہ وندامت کا اظہار کا احساس ہوا، اور اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس اجمال کی تفصیل نہیں ہے اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں، جو ایک نبی کی شان سے فروتر ہیں۔ بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب قرآن وحدیث اس معاملے میں خاموش ہیں تو ہمیں بھی اس کی تفصیلات کی کرید میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مفسرین کا ایک تیسرا گروہ ہےجو اس واقعے کی بعض جزئیات اور تفصیلات بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کے اجمال کی کچھ توضیح ہو جائے۔ تاہم یہ کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت داود ( عليه السلام ) نے ایک فوجی کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ اس زمانے کے عرف میں معیوب بات نہیں تھی۔ حضرت داود ( عليه السلام ) کو اس عورت کی خوبیوں اور کمالات کا علم ہوا تھا جس بنا پر ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس عورت کو تو ملکہ ہونا چاہئیے نہ کہ ایک عام سی عورت۔ تاکہ اس کی خوبیوں اور کمالات سے پورا ملک فیض یاب ہو۔ یہ خواہش کتنے بھی اچھے جذبے کی بنیاد پر ہو، لیکن ایک تو متعدد بیویوں کی موجودگی میں یہ نامناسب سی بات لگتی ہے۔ دوسرے بادشاہ وقت کی طرف سے اس کے اظہار میں جبر کا پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس لئے حضرت داود ( عليه السلام ) کو ایک تمثیلی واقعے سے اس کے نامناسب ہونے کا احساس دلایا گیا اور انہیں فی الواقع اس پر تنبہ ہوگیا۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے یہ دو شخص فرشتے تھے جو ایک فرضی مقدمہ لے کر حاضر ہوئے، حضرت داود ( عليه السلام ) سے کوتاہی یہ ہوئی کہ مدعی کا بیان سن کر ہی اپنی رائے کا اظہار کر دیا اور مدعا علیہ کی بات سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے رفع درجات کے لئے اس آزمائش میں انہیں ڈالا، اس غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ آزمائش تھی جو اللہ کی طرف سے ان پر آئی اور بارگاہ الٰہی میں جھک گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے فرشتے نہیں تھے، انسان ہی تھے اور یہ فرضی واقعہ نہیں، ایک حقیقی جھگڑا تھا، جس کے فیصلے کے لئے وہ آئے تھے اور اس طرح ان کے صبر وتحمل کا امتحان لیا گیا، کیونکہ اس واقعے میں ناگواری اور اشتعال طبع کے کئی پہلو تھے، ایک تو بلا اجازت دیوار پھاند کر آنا۔ دوسرے، عبادت کے مخصوص اوقات میں آکر مخل ہونا۔ تیسرے، ان کا طرز تکلﻢ بھی آپ کی حاکمانہ شان سے فروتر تھا ( کہ زیادتی نہ کرنا وغیرہ ) لیکن اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ مشتعل نہیں ہوئے اور کمال صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن دل میں جو طبعی ناگواری کا ہلکا سا احساس پیدا ہوا، اس کو بھی اپنی کوتاہی پر محمول کیا، یعنی یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی، اس لئے یہ طبعی انقباض بھی نہیں ہونا چاہئے تھا، جس پر انہوں نے توبہ واستغفار کا اہتمام کیا۔ وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے۔ عزنی الخ، سے مطلب بات چیت میں غالب آجانا دوسرے پر چھا جانا ہے۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں ؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ( بخاری وغیرہ ) نسائی میں ہے کہ حضور ﷺ نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی ﷺ ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور ﷺ ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے سجدہ کیا اور حضور ﷺ نے بھی یہ سجدہ کیا۔ ابو سعید خدری ؓ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورة ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور ﷺ سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ( احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ حضور ﷺ نے منبر پر سورة ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چناچہ آپ اترے اور سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہوگی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں۔ ( ترمذی وغیرہ ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد ؑ کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی ؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی۔ اب حضرت داؤد ؑ اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد وثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25 { فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ } ” تو ہم نے اسے معاف کردیا۔ اور یقینا ہمارے پاس اس کے لیے مقام قرب اور اچھا انجام ہے۔ “ جب وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے گا تو ہم اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کریں گے۔
Surah Saad Ayat 25 meaning in urdu
تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اس کے لیے تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے
- ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے
- اے قوم! خدا کی طرف بلانے والے کی بات قبول کرو اور اس پر ایمان
- اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت (برسے گی)
- (اے محمد) ان کو اُن کے حال پر رہنے دو کہ کھالیں اور فائدے اُٹھالیں
- بھائیو یہ دنیا کی زندگی (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے۔ اور جو آخرت
- میرے بندو آج تمہیں نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم غمناک ہوگے
- جس نے تمہاری پیٹھ توڑ رکھی تھی
- موسٰی نے کہا کہ مجھ میں اور آپ میں یہ (عہد پختہ ہوا) میں جونسی
- مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور
Quran surahs in English :
Download surah Saad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers