Surah Anfal Ayat 32 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾
[ الأنفال: 32]
اور جب انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور تکلیف دینے والا عذاب بھیج
Surah Anfal UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عذاب الٰہی نہ آنے کا سبب : اللہ کے رسول اور استغفار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے غرور وتکبر، ان کی سرکشی اور ناحق شناسی کی، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی حالت بیان کرتا ہے کہ جھوٹ موت بک دیتے ہیں کہ ہاں بھئی ہم نے قرآن سن لیا، اس میں رکھا کیا ہے۔ ہم خود قدر ہیں، اگر چاہیں تو اسی جیسا کلام کہہ دیں۔ حالانکہ وہ کہہ نہیں سکتے۔ اپنی عاجزی اور تہی دستی کو خوب جانتے، لیکن زبان سے شیخی بگھارتے تھے۔ جہاں قرآن سنا تو اس کی قدر گھٹانے کیلئے بک دیا جب کہ ان سے زبردست دعوے کے ساتھ کہا گیا کہ لاؤ اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لاؤ تو سب عاجز ہوگئے۔ پس یہ قول صرف جاہلوں کی خوش طبعی کیلئے کہتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ یہ کہنے والا نصر بن حارث ملعون تھا۔ یہ خبیث فارس کے ملک گیا تو تھا اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر آیا تھا۔ یہاں حضور کو نبوت مل چکی تھی آپ لوگوں کو کلام اللہ شریف سنا رہے ہوتے جب آپ فارغ ہوتے تو یہ اپنی مجلس جماتا اور فارس کے قصے سناتا، پھر فخراً کہتا کہو میرا بیان اچھا ہے یا محمد کا ؟ ﷺ۔ یہ بدر کے دن قید ہو کر لا یا گیا اور حضور کے فرمان سے آپ کے سامنے اس کی گردن ماری گئی فالحمدللہ اسے قید کرنے والے حضرت مقداد بن اسود ؓ تھے۔ قبہ بن ابی معیط، طعیمہ بن عدی، نصر بن حارث، یہ تینوں اسی قید میں قتل کئے گئے۔ حضرت مقداد بنے کہا بھی کہ یا رسول اللہ میرا قیدی ؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ عزوجل کی کتاب کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا۔ انہوں نے بعد از قتل پھر کہا کہ حضور میں جسے باندھ کر لایا ہوں ؟ آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اپنے فضل سے مقداد کو غنی کر دے۔ آپ خوش ہوگئے اور عرض کیا کہ حضور یہی میرا مقصد اور مقصود تھا۔ اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام ہے لیکن یہ غلط ہے بدر والے دن وہ تو زندہ ہی نہ تھا بلکہ حضور کا فرمان مروی ہے کہ اگر آج یہ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کو طلب کرتا تو میں اسے دے دیتا۔ اس لئے کہ طائف سے لوٹتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو وہی اپنی پناہ میں مکہ میں لے گیا تھا۔ یہ کفار کہتے تھے کہ قرآن میں سوائے پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کیا دھرا ہے انہیں کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ محض جھوت بات تھی جو انہوں نے گھڑ لی تھی اسی لئے ان کے اس قول کو نقل کر کے جناب باری نے فرمایا ہے کہ انہیں جواب دے کہ اسے تو آسمان و زمین کی تمام غائب باتوں کے جاننے والے نے اتارا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے، اپنے سامنے جھکنے والوں پر بڑے کرم کرتا ہے۔ پھر ان کی جہالت کا کرشمہ بیان ہو رہا ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یا اللہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت دے اور اس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما لیکن بجائے اس کے یہ دعا کرنے لگے کہ ہمیں جلد عذاب کر۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہر چیز کا وقت مقرر ہے ورنہ اس پر بھی عذاب آجاتا لیکن اگر تمہارا یہی حال رہا تو پھر بھی وہ دن دور نہیں اچانک ان کی بیخبر ی میں اپنے وقت پر آ ہی جائے گا۔ یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہمارا فیصلہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی ہوجائے گا بطور مذاق عذاب کے واقع ہونے کی درخوات کرتے تھے جو کافروں پر آنے ولاا ہے، جسے کوئی روک نہیں سکتا، جو اس اللہ کی طرف سے ہوگا جو سیڑھیوں والا ہے۔ اگلی امتوں کے جاہلوں کا بھی یہی وطیرہ رہا۔ قوم شعیب نے کہا تھا کہ اے مدعی نبوت اگر تو سجا ہے تو ہم پر آسمان کو گرا دے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا۔ ابو جہل وعیرہ نے یہ دعا کی تھی جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ کی موجودگی اور انہی میں سے بعض کا استغفار اللہ کے عذاب کی ڈھال ہے۔ نصر بن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی جس کا ذکر سال سائل میں ہے ان کے اسی قول کا ذکر آیت وقالو ربنا عجل لنا الخ، میں ہے اور آیت ولقد جئتمونا فرادی الخ، میں ہے اور آیت سال سائل الخ، میں ہے۔ غرض دس سے اوپر اوپر آیتیں اس بیان میں ہیں۔ عمرو بن عاص جنگ احد میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ اگر محمد ﷺ کا لا یا ہوا دین حق ہے تو مجھے مریے گھورے سمیت زمین میں دھنسا دے گو اس امت کے بع وقوفوں نے یہ تمنا کی لیکن اللہ نے اس امت پر رحم فرمایا اور جواب دیا کہ ایک تو پیغمبر کی موجودگی عام عذاب سے مانع ہے دوسرے تم لوگوں کا استغفار۔ ابن عباس ؓ ما کا بیان ہے کہ مشرک حج میں طواف کے وقت کہتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک اسی وقت رسول اللہ ﷺ فرماتے بس بس لیکن وہ پھر کہتے الا شریک ھو لک تملیکہ و ما ملک یعنی ہم حاضر ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ پھر کہتے ہاں وہ شریک جو خود بھی تیری ملکیت میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ مالک ہیں ان کا بھی اصل مالک تو ہی ہے اور کہتے غفوانک غفوانک اے اللہ ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں اے اللہ تو ہمیں معاف فرما۔ اسی طلب بخشش کو عذاب کے جلد نہ آنے کا سبب بتایا گیا ہے۔ فرماتے ہیں ان میں دو سبب تھے ایک تو نبی ﷺ دوسرے استغفار پس آپ تو چل دیئے اور استغفار باقی رہ گیا قرشی آپس میں کہا کرتے تھے کہ محمد ﷺ کو اللہ نے ہم میں سے ہم پر بزرگ بنایا اے اللہ اگر یہ سچا ہے تو تو ہمیں عذاب کر۔ جب ایمان لائے تو اپنے اس قول پر بڑا ہی نادم ہوئے اور استغفار کیا اسی کا بیان دوسری آیت میں ہے۔ پس انبیاء کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نہیں آتا ہاں وہ نکل جائیں پھر عذاب برس پڑتے ہیں اور چونکہ ان کی قسمت میں ایمان تھا اور بعد از ایمان وہ استغفار اہل مکہ کے لئے باعث امن وامان تھا۔ ان دو وجہ امن میں سے ایک تو اب نہ رہا دوسرا اب بھی موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤ گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا ( مستدرک حاکم ) مسند احمد میں ہی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 32 وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سرداران قریش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ مکہ کے عام لوگوں کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے لیے وہ مختلف قسم کی تدبیریں کرتے رہتے تھے ‘ جن کا ذکر قرآن میں بھی متعدد بار ہوا ہے۔ اس آیت میں ان کی ایسی ہی ایک تدبیر کا تذکرہ ہے۔ ان کے بڑے بڑے سردار عوام کے اجتماعات میں علی الاعلان اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے اور ہم اس کا انکار کر رہے ہیں تو ہم پر اللہ کی طرف سے عذاب کیوں نہیں آجاتا ؟ بلکہ وہ اللہ کو مخاطب کر کے دعائیہ انداز میں بھی پکارتے تھے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیرا ہی کلام ہے تو پھر اس کا انکار کرنے کے سبب ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے ‘ یا کسی بھی شکل میں ہم پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ اور اس کے بعد وہ اپنی اس تدبیر کی خوب تشہیر کرتے کہ دیکھا ہماری اس دعا کا کچھ بھی ردِّ عمل نہیں ہوا ‘ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہوتا تو ہم پر اب تک عذاب آچکا ہوتا۔ چناچہ اس طرح وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
وإذ قالوا اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء أو ائتنا بعذاب أليم
سورة: الأنفال - آية: ( 32 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 180 )Surah Anfal Ayat 32 meaning in urdu
اور وہ بات بھی یاد ہے جو اُنہوں نے کہی تھی کہ “خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی درد ناک عذاب ہم پر لے آ"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو اگر تم کو میرے دین میں کسی طرح کا
- جانداروں میں سب سے بدتر خدا کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں سو
- حٰم
- اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔ جب تک اُن کے بڑے شہر
- اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا
- کیا (کفار) کہتے ہیں کہ ان پیغمبر نے قرآن از خود بنا لیا ہے بات
- بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور
- اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں
- اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا پھر اپنے
- بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers