Surah Ghafir Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾
[ غافر: 25]
غرض جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر پہنچے تو کہنے لگے کہ جو اس کے ساتھ (خدا پر) ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دو۔ اور کافروں کی تدبیریں بےٹھکانے ہوتی ہیں
Surah Ghafir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو، جو نجومیوں کی پیش گوئی کےمطابق، اس کی بادشاہ کےلیے خطرے کا باعث تھا۔ یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ ( عليه السلام ) کی تذلیل و اہانت کے لیے دیا، نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ ( عليه السلام ) کے وجود کو اپنے لیے مصیبت اور نحوست کاباعث سمجھیں،جیساکہ فی الواقع انہوں نے کہا، «أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا» ( الأعراف: 129 ) ” اے موسیٰ ( عليه السلام ) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دوچار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے “۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
فرعون کا بدترین حکم۔اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول ﷺ کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہوگی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران ؑ کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل وبراہین کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء ( علیہم السلام ) کو دیتے ہے۔ جیسے ارشاد ہے ( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52ۚ ) 51۔ الذاريات:52) ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے ؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں، جب ہمارے رسول موسیٰ ؑ ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کردیا اس رسول پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کردو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو ، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کرچکا تھا۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہوجائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہوجائیں بےفائدہ اور فضول تھی۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے، حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ ملعوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے مخاطب لوگو ! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول کریم ﷺ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25 { فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَآئَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْیُوْا نِسَآئَ ہُمْ } ” تو جب وہ آیا ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر تو انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائیں ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھو۔ “ { وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ } ” لیکن کافروں کا دائو بھٹک کر ہی رہ جاتا ہے۔ “ اس سے پہلے ہم سورة الأعراف کے پندرھویں رکوع میں بھی سردارانِ قوم فرعون کے اس مطالبے کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ آپ موسیٰ علیہ السلام ٰ کو کب تک ڈھیل دیتے رہیں گے ؟ لوگ دھڑا دھڑ اس پر ایمان لا رہے ہیں ‘ روز بروز اس کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر فساد پھیل رہا ہے۔ آپ اسے قتل کیوں نہیں کروا دیتے ؟ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ فرعون ایک وقت تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے سے کتراتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گویا اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا اور اس تعلق کی وجہ سے وہ دل میں آپ علیہ السلام کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام ٰ کی پیدائش سے لے کر بحیثیت ِرسول علیہ السلام فرعون کے سامنے آنے تک کے واقعات کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجیے۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت رعمسیس دوم فرعون برسر اقتدار تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ٰ کو دریا سے نکال کر جب اس کے محل میں لایا گیا تو اس کی بیوی نے کسی طرح اسے قائل کرلیا کہ اس بچے کو قتل نہ کیا جائے۔ اس موقع پر فرعون کی بیوی کے اپنے شوہر کے ساتھ مکالمے کو سورة القصص میں یوں نقل کیا گیا ہے : { وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَط لَا تَقْتُلُوْہُ ق عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا } آیت 9 ” اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔ تم اسے قتل مت کرو ‘ ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں “۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خاتون حضرت آسیہ رض ہی تھیں جن کا ذکر سورة التحريم میں آیا ہے۔ اس وقت تک فرعون بےاولاد تھا۔ بعد میں اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ چناچہ فرعون کا حقیقی بیٹا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سگے بھائیوں کی طرح اکٹھے رہے اور ایک ساتھ جوانی کی عمر کو پہنچے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہوگیا تو آپ علیہ السلام مدین چلے گئے۔ مدین سے آپ علیہ السلام کی واپسی کے زمانے میں بڑا فرعون اگرچہ زندہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے اس نے تمام امور سلطنت اپنے بیٹے منفتاح کو سونپ رکھے تھے۔ اس طرح عملی طور پر اس کا بیٹاہی حکمران تھا جو ایک طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھائی اور بچپن کا ساتھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کے پر زور مطالبے کے باوجود بھی وہ کئی سال تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف انتہائی اقدام کرنے سے گریز کرتا رہا۔ پھر جب اس نے کسی سخت اقدام کو ناگزیر سمجھا بھی تو آپ علیہ السلام کی ذات کے بجائے آپ علیہ السلام کی قوم کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت اس نے ایک دفعہ پھر حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کردیا جائے اور صرف ان کی بیٹیوں کو ہی زندہ رہنے دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ اس تحریک کو کچلنے اور بنی اسرائیل کی طاقت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس کے اسی منصوبے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے مخالفین کی کوئی چال بھی اللہ کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
فلما جاءهم بالحق من عندنا قالوا اقتلوا أبناء الذين آمنوا معه واستحيوا نساءهم وما كيد الكافرين إلا في ضلال
سورة: غافر - آية: ( 25 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 469 )Surah Ghafir Ayat 25 meaning in urdu
پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا تو انہوں نے کہا "جو لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیاں کو جیتا چھوڑ دو" مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز
- (اے مخاطب) جس دن تو اس کو دیکھے گا (اُس دن یہ حال ہوگا کہ)
- وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب جھپٹ لیا کریں گے جس (کے پینے) سے
- اگر وہ تم میں (شامل ہوکر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت
- تو (اے محمدﷺ) اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہنا اور جیسا تم کو
- سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے
- اور خدا (کے نام کو) اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں
- جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں
- اے اہل ایمان (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں
- اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں کے پاس نہیں آتی مگر
Quran surahs in English :
Download surah Ghafir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ghafir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ghafir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers