Surah fatah Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾
[ الفتح: 25]
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔ اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بےخبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ (تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے
Surah fatah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) هَدْيٌ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر ( عمرہ کرنے والے ) اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا۔ یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا مَحِلٌّ ( حلال ہونے کی جگہ ) سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں۔ یہ مقام معتمر کے لئےمروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لئے منیٰ تھا۔ اور اسلام میں ذبح کرنےکی جگہ مکہ منیٰ اور پورے حدود حرم ہیں۔ مَعْكُوفًا، حال ہے۔ یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے، انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔
( 2 ) یعنی مکے میں اپنا ایمان چھپائےرہ رہے تھے۔
( 3 ) کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھاکہ یہ بھی مارےجاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا مَعَرَّةٌ کے اصل معنی عیب کےہیں۔ یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی۔ یعنی ایک تو قتل خطاکی دیت دینی پڑتی اور دوسرے، کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔
( 4 ) یہ لَوْلا کا محذوف جواب ہے۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔
( 5 ) بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔
( 6 ) تَزَيَّلُوا بمعنی تَمَيَّزُوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکےمیں اباد مسلمان، اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے، تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے۔ عذاب الیم سے مراد یہاں قتل، قیدی بنانا اور قہر وغلبہ ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں انہوں نے ہی تمہیں مسجد حرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کردیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکہ میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کرسکے ہیں نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہوجاتے اور بےعلمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے، پاس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقینا ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے حضرت جنید بن سبیع فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ ﷺ سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہوگیا اور اب حضور ﷺ کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت ( لو لا رجال ) الخ، نازل ہوئی ہے ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں ( طبرانی ) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں ملے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے۔ پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) لکھنے سے انکار کردیا حضور ﷺ کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ ﷺ لکھوانے سے انکار کیا، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کردیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی آیت ( لا الہ الا اللہ ) پر جیسے ابن عباس کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) نہ کہہ لیں جس نے آیت ( لا الہ الا اللہ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت (اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ 35ۙ ) 37۔ الصافات:35) یعنی ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جل ثناء نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے۔ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے انہوں نے اس سے تکبر کیا اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح نامہ مکمل کرلیا، ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی حضرت زہری کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اخلاص ہے عطا فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر ) حضرت فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ) ہے حضرت علی فرماتے ہیں اس سے حدیث ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) مراد ہے یہی قول حضرت ابن عمر کا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے۔ حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے حضرت زہری فرماتے ہیں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) مراد ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) ہے پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت اسی طرح ہے ( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام ) یعنی کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کرلی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آجاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد حرام میں فساد برپا ہوجاتا جب حضرت عمر کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن حضرت ابی نے فرمایا یہ تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ میں حضور ﷺ کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر جناب عمر فاروق نے فرمایا آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے ( نسائی ) " ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے " مسند احمد میں حضرت مسور بن محزمہ اور حضرت مروان بن حکم فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا آپ جب عسفان پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ ﷺ قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کرلی ہیں انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لئے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لئے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھالیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آجاتے تو ان کا مقصود پورا ہوجاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کردیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کرلیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو ( ثنیۃ المرار ) کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ حضور ﷺ نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی، ادھر حضور ﷺ جب ( ثنیۃ المرار ) میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہ یہ تھکی نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا۔ سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا جب پڑاؤ ہوگیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چناچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو حضور ﷺ کے بارے میں بڑی عجلت کی حضور ﷺ تم سے لڑنے کو نہیں آئے آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ ﷺ کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھی قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ عہد شکن شخص ہے اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کردیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کردو۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے حضور ﷺ کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے۔ اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا یہ میں دیکھ رہا ہوں تم نے انہیں برا کہا ان کی بےعزتی کی ان پر تہمت رکھی ان سے بدگمانی کی میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لئے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آپہنچا سب نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بدگمانی نہیں آپ جائیے۔ اب یہ چلا اور حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کرلیا ہے اور آئے ہیں اپنی قوم کی شان و شوکت کو آپ ہی توڑنے کے لئے۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کرچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کرچکے ہیں کہ ہرگز ہرگز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے اللہ کی قسم مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے، یہ سن کر ابوبکر صدیق سے رہا نہ گیا آپ اس وقت حضور ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آپ نے کہا جالات کی وہ چوستا رہ، ہم اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں ؟ عروہ نے حضور ﷺ سے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ابو قحافہ کے بیٹے تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا اس کی اس بےادبی کو حضرت مغیرہ بن شعبہ برداشت نہ کرسکے یہ حضور ﷺ کے پاس ہی کھڑے تھے لوہا ان کے ہاتھ میں تھا وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا اپنا ہاتھ دور رکھ تو حضور ﷺ کے جسم کو چھو نہیں سکتا۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بدزبان اور ٹیڑھا آدمی ہے حضور ﷺ نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ تو کہنے لگا غدار تو تو کل طہارت بھی نہ جانتا تھا۔ الغرض اسے بھی حضور ﷺ نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول ﷺ کس طرح حضور ﷺ کے پروانے بنے ہوئے ہیں آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں آپ کا کوئی بال گرپڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے، جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا اے قریش کی جماعت کے لوگو ! میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں اللہ کی قسم میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کرلو کہ اصحاب رسول ﷺ ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں، اب آپ نے حضرت عمر کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت خراش بن امیہ خزاعی کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا ( شاید اسی بنا پر ) حضرت عمر نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کردیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے اس لئے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ حضرت عثمان بن عفان کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجیں کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں، حضرت عثمان نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو حضرت عثمان کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول ﷺ اہل مکہ کو پہنچا دیں چناچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا، انہوں نے کہا کہ آپ تو آہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کرلیں لیکن ذوالنورین نے جواب دیا کہ جب تک حضور ﷺ طواف نہ کرلیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے جناب عثمان کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا ہے، زہری کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کرلو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آسکتے تاکہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چناچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا جب حضور ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہوگیا جو اسے بھیجا ہے اس نے حضور ﷺ سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی شرائط صلح طے ہوگئے صرف لکھنا باقی رہا، حضرت عمر دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور فرمانے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں تو کہا پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا عمر اللہ کے رسول ﷺ کی رکاب تھامے رہو آپ اللہ کے سچے رسول ہیں حضرت عمر نے فرمایا یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، حضرت عمر سے پھر بھی نہ صبر ہوسکا خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا آپ نے جواب میں فرمایا سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کرسکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا، حضرت عمر فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں میں حضور ﷺ سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو صلح نامہ لکھنے کے لئے بلوایا اور فرمایا لکھو آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) اس پر سہیل نے کہا میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئے ( بسمک اللھم ) آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی لکھو پھر فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا اس پر سہیل نے کہا اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یوں لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ ﷺ اور سہیل بن عمرو نے کیا اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہوگی لوگ امن وامان سے رہیں گے ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول اللہ ﷺ قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی صلح قائم رہے گی کوئی طوق و زنجیر قیدو بند بھی نہ ہوگا اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد ﷺ کی جماعت اور آپ کے عہدو پیمان میں آنا چاہے وہ آسکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہدوپیمان میں آنا چاہے وہ بھی آسکتا ہے اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہدو پیمان میں آنا اور بنو بکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں مکہ میں نہ آئیں اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ نے اپنے اصحاب سمیت آئیں تین دن مکہ میں ٹھہریں ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہوتے ہیں تلوار میان میں ہو، ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے حضرت ابو جندل ؓ لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ خواب دیکھ چکے تھے اس لئے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا یہاں آکر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے بغیر زیارت بیت اللہ کے یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ ﷺ اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہوجائیں۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی مزید برآں جب حضرت ابو جندل ؓ جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر حضور ﷺ آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے حاضر حضور ﷺ ہوتے ہیں تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ﷺ میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہوچکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے سہیل کھڑا ہوتا ہے اور حضرت ابو جندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے حضرت ابو جندل بلند آواز کہتے ہیں اے مسلمانو مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ کو اور برا فروختہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے ابو جندل سے فرمایا ابو جندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ نہ صرف تیرے لئے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس درد و غم رنج و الم ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے، ہم چونکہ صلح کرچکے ہیں شرطیں طے ہوچکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کردیا ہے، ہم غدر کرنا، شرائط کے خلاف کرنا، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو جندل کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو جندل صبر کرو ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے۔ حضرت عمر ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ حضرت ابو جندل کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آرپار کردیں لیکن حضرت ابو جندل کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا۔ صلح نامہ مکمل ہوگیا فیصلہ پورا ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لئے مضطرب تھے۔ پھر حضور ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کرلو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ لوٹ کر ام سلمہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے لوگوں کو یہ کیا ہوگیا ہے ؟ ام المومنین نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے آپ ان سے کچھ نہ کہئے اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئے اور خود سر منڈوا لیجئے پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہوگا جو سورة الفتح نازل ہوئی، یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ تھے، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا تجسس کے لئے روانہ کیا۔ غدیر اشطاط میں آکر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کرلیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کرلیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کردیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہوگی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پالی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی، دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے نہ کسی اور ارادے سے آئے صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا یارسول اللہ ﷺ آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں آپ چلے چلئے ہمارا ارادہ جدال و قتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو، آپ نے فرمایا بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو۔ کچھ اور آگے چل کر حضور ﷺ نے فرمایا خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آرہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور حضور ﷺ مع صحابہ کے ان کے کلے پر پہنچ گئے اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہوگئی بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہوچکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کرلو اور جب یہ خود حاضر حضور ﷺ ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئے جناب دو ہی باتیں ہیں یا آپ غالب وہ مغلوب یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا آپ ہی کی قوم ہے آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہوگی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے، اس پر حضرت ابوبکر صدیق کا وہ جواب دیا جو پہلے گذر چکا۔ حضرت مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر حاضر حضور ﷺ ہوئے آپ نے فرمایا تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لئے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ لڑپڑیں، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہوجاتا ہے مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت باادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آن کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ حضور ﷺ جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لئے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کردو اور اس کی طرف ہانک دو اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ ایک تاجر شخص ہے ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آگیا اسے دیکھ کر حضور ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا لو اب کام سہل ہوگیا اس نے جب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا واللہ میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو، یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہہ دیا تھا کہ یہ حرمات الہٰی کی عزت رکھتے ہوئے مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کرلوں گا، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کرلینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کرسکے جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر حضور ﷺ کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کردیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو جندل اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آگئے، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے آپ نے فرمایا ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ اس نے کہا پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں آپ نے فرمایا تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کردیا مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں اس وقت حضرت ابو جندل نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بےچاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے اس پر حضرت عمر حاضر حضور ﷺ ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گذر چکا پھر پوچھا کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ یہ اسی سال ہوگا حضرت عمر فرماتے ہیں میں پھر ابوبکر کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گذرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا حضور ﷺ اللہ کے رسول ﷺ نہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہاں، پھر میں نے حضور ﷺ کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہوا۔ جو جواب خود رسول کریم ﷺ نے دیا تھا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدھام کے قریب تھا کہ آ پس میں لڑ پڑیں۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں حضور ﷺ کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ۭ وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 10 ) 60۔ الممتحنة :10) ، نازل ہوئی اور حضرت عمر نے اس حکم کے ماتحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابو سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کرلیا۔ آنحضرت ﷺ یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آگئے ابو بصیر نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور ابو بصیر کو واپس لینے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اچھی بات ہے میں اسے واپس کردیتا ہوں چناچہ آپ نے حضرت ابو بصیر کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے اور بےفکری سے وہاں کھجوریں کھانے لگے تو حضرت ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا واللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے۔ اس نے کہا ہاں بیشک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کرلیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی، حضرت ابو بصیر نے ہاتھ بڑھا کر کہا ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا اسے دیکھتے ہی حضور ﷺ نے فرمایا یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ رسول اللہ ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئے وہ آیا اتنے میں حضرت ابو بصیر پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کردیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کردیا، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی آپ نے فرمایا افسوس یہ کیسا شخص ہے ؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا یہ سنتے ہی حضرت ابو بصیر چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کردیں گے یہ سوچتے ہی حضور ﷺ کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بودوباش اختیار کرلی یہ واقعہ مشہور ہوگیا ادھر سے ابو جندل بن سہیل جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست حضرت ابو بصیر کے پاس چلے، اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا حضرت ابو بصیر کے پاس آجاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہوگئی اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لئے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آگئے بالاخر انہوں نے اللہ کے پیغمبر ﷺ کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور ﷺ ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آجائے وہ امن میں ہے ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لو چناچہ حضور ﷺ نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور اللہ عزوجل نے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24 ) 48۔ الفتح:24) ، نازل فرمائی۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں میں ابو وائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں انہوں نے کہا ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں پس حضرت علی بن ابو طالب نے فرمایا ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا اپنی جانوں پر تہمت رکھو ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقینا لڑتے، حضرت عمر نے آکر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا یہ جواب سن کر حضرت عمر لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے وہاں سے حضرت صدیق کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورة فتح نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ابو جندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقینا لوٹا دیتا، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورة فتح اتری تو حضور ﷺ نے حضرت عمر کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو حضور ﷺ سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ( مسلم ) مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو مشرکین نے کہا اگر ہم آپ کو رسول اللہ ﷺ مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے تو آپ نے فرمایا علی اسے مٹا دو۔ اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبداللہ ﷺ نے اللہ کی قسم رسول اللہ حضرت علی بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابو جہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہوگیا ہو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25 { ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ } ” وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں روکے رکھا مسجد ِحرام تک جانے سے اور قربانی کے جانور بھی روکے گئے اپنی جگہ پہنچنے سے۔ “ یہ ان جرائم کا تذکرہ ہے جن کا ارتکاب قریش مکہ نے اس پورے واقعے کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو احرام کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کے طواف سے روکا بلکہ ان کے قربانی کے جانوروں کو بھی قربان گاہوں تک نہ پہنچنے دیا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور اس ممکنہ جنگ کو ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں جو حکمت کارفرما تھی اب اس کا ذکر ہو رہا ہے : { وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْہُمْ اَنْ تَطَئُوْہُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَّعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ } ” اور اگر نہ ہوتے مکہ میں موجود ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے ‘ اندیشہ تھا کہ تم لوگ انہیں بھی کچل دیتے تو ان کے بارے میں تم پر الزام آتا بیخبر ی میں تو جنگ نہ روکی جاتی۔ “ عین موقع پر جنگ کو روکنے میں دراصل یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ اس وقت تک مکہ میں بہت سے ایسے اہل ِ ایمان افراد موجود تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے تھے۔ اس میں ضعفاء بھی تھے ‘ مریض بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان لوگوں کا ذکر سورة النساء کے چودھویں رکوع میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی معذوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کر دے گا اور ہجرت نہ کرسکنے کی بنا پر ان سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ چناچہ ایسے لوگوں کی شہر میں موجودگی کی صورت میں جب جنگ کی چکی ّچلتی تو یہ بےگناہ لوگ بھی اس میں پس جاتے اور الٹا مسلمانوں پر ان سے متعلق الزام بھی آتا کہ انہوں نے اپنے ہی اہل ایمان ساتھیوں کو قتل کردیا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ممکنہ جنگ کو روک دیا اور مسلمانوں کو بغیر لڑے صلح کی شکل میں فتح دے دی۔ { لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ } ” جنگ اس لیے روکی گئی تاکہ اللہ داخل کرے اپنی رحمت میں جس کو چاہے۔ “ { لَوْ تَزَیَّلُوْا لَـعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } ” اگر وہ اہل ِایمان علیحدہ ہوچکے ہوتے تو ان اہل ّمکہ میں سے جو کافر تھے ان کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیتے۔ “ اگر وہ کمزور اور معذور اہل ایمان اس وقت تک مکہ سے نکل چکے ہوتے تو ہم یہ جنگ ہونے دیتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کو ان کے جرائم کی بدترین سزا دلواتے۔
هم الذين كفروا وصدوكم عن المسجد الحرام والهدي معكوفا أن يبلغ محله ولولا رجال مؤمنون ونساء مؤمنات لم تعلموهم أن تطئوهم فتصيبكم منهم معرة بغير علم ليدخل الله في رحمته من يشاء لو تزيلوا لعذبنا الذين كفروا منهم عذابا أليما
سورة: الفتح - آية: ( 25 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 514 )Surah fatah Ayat 25 meaning in urdu
وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو اُن کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور
- پھر جب وہ تم سے تکلیف کو دور کردیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں
- اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری
- لوگو خدا کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ
- خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو) منع کرتے
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں
- آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بہت سی موتوں کو پکارو
- جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ
- اور (اے بندے یہ) اسی کی قدرت کے نمونے ہیں کہ تو زمین کو دبی
- منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا
Quran surahs in English :
Download surah fatah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah fatah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter fatah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers