Surah Zariyat Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾
[ الذاريات: 25]
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا (دیکھا تو) ایسے لوگ کہ نہ جان نہ پہچان
Surah Zariyat UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مہمان اور میزبان ؟ یہ واقعہ سورة ہود اور سورة حجر میں بھی گذر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کردیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86 ) 4۔ النساء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لئے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل ( علیہم السلام ) تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لئے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور انکے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہوگئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ ) 11۔ ھود :70) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہوگئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لئے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہوگئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہوگئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہوگئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت و کرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔ الحمد اللہ ! الحمد اللہ ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لئے باقیات صالحات میں اسے کرلے۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25{ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط } ” جب وہ اس کے ہاں داخل ہوئے تو انہوں نے سلام کہا۔ “ { قَالَ سَلٰـمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ۔ } ” اس نے بھی جواب میں سلام کہا اور دل میں کہا کہ یہ تو کوئی اجنبی لوگ ہیں۔ “
إذ دخلوا عليه فقالوا سلاما قال سلام قوم منكرون
سورة: الذاريات - آية: ( 25 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 521 )Surah Zariyat Ayat 25 meaning in urdu
جب وہ اُس کے ہاں آئے تو کہا آپ کو سلام ہے اُس نے کہا "آپ لوگوں کو بھی سلام ہے کچھ نا آشنا سے لوگ ہیں"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا انہوں نے خدا کے سوا اور سفارشی بنالئے ہیں۔ کہو کہ خواہ وہ کسی
- اور ان پر مینھہ برسایا۔ سو جو مینھہ ان (لوگوں) پر (برسا) جو ڈرائے گئے
- اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس
- اور جس دن کافر دوزخ کے سامنے کئے جائیں گے (تو کہا جائے گا کہ)
- اور ان پر صبح سویرے ہی اٹل عذاب آ نازل ہوا
- مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے
- اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں
- لیکن جب وہ ان کو نجات دے دیتا ہے تو ملک میں ناحق شرارت کرنے
- وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے
- بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ
Quran surahs in English :
Download surah Zariyat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zariyat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zariyat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers