Surah Al Hijr Ayat 26 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾
[ الحجر: 26]
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے
Surah Al Hijr Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، تراب، بھیگی ہوئی طین، گوندھی ہوئی بدبودار «حَمَإٍ مَسْنُونٍ» یہ حَمَإٍ مَسْنُونٍ خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو صَلْصَالٍ اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو فَخَّارٌ ( ٹھیکری ) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا حَمَأٍ مَسْنُونٌ ( گوندھی ہوئی سڑی ہوئی، بدبودار ) مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا ( یعنی صلصال ) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ كَالْفَخَّارِ ( فخار کی ماند کہا گیا ہے «خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ» (الرحمن:14 ) ” پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا “۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
خشک مٹی صلصال سے مراد خشک مٹی ہے۔ اسی جیسی آیت ( خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14 ۙ ) 55۔ الرحمن:14) ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم ؑ اس سے جو تمہارے سامنے بیان کردیا گیا ہے۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم ؑ کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 26 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ حَمَاٍ مَسْنُون سے سنا ہوا گارا مراد ہے ‘ جس سے بدبو بھی اٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے مادۂ تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تراب یعنی مٹی کا ذکر ہے ‘ چناچہ فرمایا : وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ الروم : 20۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں ” طِین “ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الأعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں : خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس آدم کو بنایا مٹی سے“۔ طین کے بعد ” طین لازب “ کا مرحلہ ہے۔ سورة الصّٰفٰت میں فرمایا گیا : اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ” طین لازب “ اصل میں وہ گارا ہے جو عمل تخمیر fermentation کی وجہ سے لیس دار ہوچکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی organic matter بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ ” طین لازب “ کے بعد اگلا مرحلہ ” حماٍ مسنون “ کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سٹراند پیدا ہوجائے تو اس کو ” حماٍ مسنون “ کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہو اگارا حماٍ مسنون خشک ہو کر سخت ہوجائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہوگا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آجاتی ہے ‘ جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے ” صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ “ الرحمن : 14 کی اصطلاح استعمال کی ہے ‘ یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کرسکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ‘ لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ تُرَاب ‘ طِین ‘ طِین لازب ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صلصالٍ کالفَخَّار کے استعمال میں یقیناً کوئی حکمت کارفرما ہوگی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل stages کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء Evolution Theory کے ساتھ بھی اس کی تطبیق corroboration ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہرحال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی ‘ پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر fermentation کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی Algai یا امیبا Amoeba کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چناچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے ‘ گویا : ” متفق گر دید رائے بو علی بارائے من ! “
Surah Al Hijr Ayat 26 meaning in urdu
ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- لوگوں کو چاہیئے کہ (اس نعمت کے شکر میں) اس گھر کے مالک کی عبادت
- کیا تم اس سےکہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا
- اور میرے گھر والوں میں سے (ایک کو) میرا وزیر (یعنی مددگار) مقرر فرما
- اور ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو تم اُن کے ملنے سے شک میں
- بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے
- یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے
- (اور) اس کو کوئی روک نہیں سکے گا
- اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک (خدا) بناتے اور ان سے
- اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور
- بلکہ اس شخص کو نصیحت دینے کے لئے (نازل کیا ہے) جو خوف رکھتا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Al Hijr with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hijr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hijr Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers