Surah baqarah Ayat 14 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 14 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 14 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ﴾
[ البقرة: 14]

Ayat With Urdu Translation

اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور (پیروانِ محمدﷺ سے) تو ہم ہنسی کیا کرتے ہیں

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) شیاطین سے مراد سرداران قریش ویہود ہیں جن کے ایما پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، یا منافقین کے اپنے سردار۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


فریب زدہ لوگ مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہوجائے، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہوجائے۔ اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔ خلوا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں۔ اور جاتے ہیں پس خلوا جو کہ الیٰ کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں الیٰ معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے، ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔ حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔ قتادہ فرماتے ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔ ابو العالیہ، سدی، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں " ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ " قرآن میں بھی آیت ( شیاطین الانس والجن ) آیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ " ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ " ابوذر ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا انسان کے شیطان بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب یہ منافق مسلمان سے ملتے تو کہتے ہیں " ہم تمہارے ساتھ ہیں " یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو۔ اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کردی جائے گی جس میں دروازہ ہوگا، اس طرف تو رحمت ہوگی اور دوسری طرف عذاب ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے کافر ہماری ڈھیل کو اپنے حق میں بہتر نہ جانیں۔ اس تاخیر میں وہ اپنی بدکرداریوں میں اور بڑھ جاتے ہیں پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق، مکر، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ آیت ( وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ )آل عمران:54) اور آیت ( اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :15) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دیگا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ) 10۔ يونس:27) یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی " ظلم " ہے اور دوسری برائی اور زیادتی " عدل " ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔ ایک اور مطلب بھی سنئے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن وامان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔ یمدھم کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ ) 23۔ المؤمنون:55) یعنی کیا یہ یوں سمھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لئے باعث خیر ہے نہیں ! نہیں ! نہیں ! صحیح شعور ہی نہیں اور آیت ( سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ )الأعراف:182) اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 45؀ )الأنعام:4544) یعنی جب لوگوں نے نصیحت بھلا دی ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ وہ اپنی چیزوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، اب گھبرا گئے، ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لئے ہی ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ )الأنعام:110) طغیان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ) 69۔ الحاقة:11) ابن عباس فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔ عمہ کہتے ہیں گمراہی کو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہوجاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پاسکتا ہے۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں " عمی " کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے " عمہ " کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی " عمی " کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) 22۔ الحج:46)

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 14 وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا ج عام یہودی بھی کہتے تھے کہ ہم بھی تو آخر اللہ کو اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ جبکہ منافق تو رسول ﷺ ‘ کو بھی مانتے تھے۔وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا یہاں ” شیاطین “ سے مرادیہود کے علماء بھی ہوسکتے ہیں اور منافقین کے سردار بھی۔ عبداللہ بن ابی منافقین مدینہ کا سردار تھا۔ اگر وہ کبھی انہیں ملامت کرتا کہ معلوم ہوتا ہے تم تو بالکل پوری طرح سے مسلمانوں میں شامل ہی ہوگئے ہو ‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم محمد ﷺ کی ہر بات مان رہے ہو ‘ تو اب انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے کہنا پڑتا تھا کہ نہیں نہیں ‘ ہم تو مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ہم ان سے ذرا تمسخر کر رہے ہیں ‘ ہم آپ ہی کے ساتھ ہیں ‘ آپ فکر نہ کریں۔ منافق تو ہوتا ہی دو رخا ہے۔ ” نفق “ کہتے ہیں سرنگ کو ‘ جس کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ” نافقاء “ گوہ کے ِ بل کو کہا جاتا ہے۔ گوہ اپنے بل کے دو منہ رکھتا ہے کہ اگر کتا شکار کے لیے ایک طرف سے داخل ہوجائے تو وہ دوسری طرف سے نکل بھاگے۔ تو منافق بھی ایسا شخص ہے جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ سورة النساء میں منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے : مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط آیت 143 یعنی کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں۔ لفظ ” شَیْطٰن “ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مادہ ” ش ط ن “ ہے اور دوسری یہ کہ یہ ” ش و ط “ مادہ سے ہے۔ شَطَنَ کے معنی ہیں تَبَعَّدَ یعنی بہت دور ہوگیا۔ پس شیطان سے مراد ہے جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوگیا۔ جبکہ شاط یَشُوْطُ کے معنی ہیں اِحْتَرَقَ غَضَبًا وَحَسَدًا یعنی کوئی شخص غصے ّ اور حسد کے اندر جل اٹھا۔ اس سے فَعْلَان کے وزن پر ” شیطان “ ہے ‘ یعنی وہ جو حسد اور غضب کی آگ میں جل رہا ہے۔ چناچہ ایک تو شیطان وہ ہے جو جناتّ میں سے ہے ‘ جس کا نام پہلے ” عزازیل “ تھا ‘ اب ہم اسے ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر یہ کہ دنیا میں جو بھی اس کے پیروکار ہیں اور اس کے مشن میں شریک کار ہیں ‘ خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے ‘ وہ بھی شیاطین ہیں۔ اسی طرح اہل کفر اور اہل زیغ کے جو بڑے بڑے سردار ہوتے ہیں ان کو بھی شیاطین سے تعبیر کیا گیا۔ آیت زیر مطالعہ میں شیاطین سے یہی سردار مراد ہیں۔ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُ ‘ وْنَ جب وہ علیحدگی میں اپنے شیطانوں یعنی سرداروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ ان مسلمانوں کو تو ہم بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ان سے استہزاء اور تمسخر کر رہے ہیں جو ان کے سامنے ” اٰمَنَّا “ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا وإذا خلوا إلى شياطينهم قالوا إنا معكم إنما نحن مستهزئون

سورة: البقرة - آية: ( 14 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 3 )

Surah baqarah Ayat 14 meaning in urdu

جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. پھر غبار ہو کر اُڑنے لگیں
  2. مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے
  3. اور اسی نے زمین پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے کہ تم کو لے کر
  4. ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں
  5. اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے
  6. یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے بندے پئیں گے اور اس میں
  7. (اے محمدﷺ) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو (از راہ نفاق) کہتے ہیں
  8. پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو
  9. یہ تمہارے آگے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے خوش ہو جاؤ لیکن اگر
  10. یعنی قرآن کو (کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے سے) ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers