Surah baqarah Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾
[ البقرة: 27]
جو خدا کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (یعنی رشتہٴ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا الله نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) مفسرین نے عَهْدٌ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی سے باز رکھنے کے لئے انبیاء ( عليهم السلام ) کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ ۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان ( صلى الله عليه وسلم ) کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ وہ عہدالست جو صلب آدم سے نکالنے کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے: «وَإِذۡ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِيٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمۡ» ( الأعراف: 172 ) نقض عہد کا مطلب عہد کی پروا نہ کرنا ہے ( ابن کثیر )
( 2 ) ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا، اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور داعیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ ؓ سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔ اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کرلیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آجاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ) 6۔ الأنعام:44) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں ( ابن جریر ابن ابی حاتم ) امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بعوضۃ کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آسکتا ہے یا " ما " نکرہ موصوفہ ہے اور " بعوضہ " صفت ہے ابن جریر " ما " کا موصولہ ہونا اور " بعوضہ " کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔ یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمدا یانا ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی ﷺ سے پر ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " بعوضہ " منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔ کسائی اور قرا اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ " بعوضہ " پڑھتے ہیں۔ ابن جنبی کہتے ہیں یہ " ما " کا صلہ ہوگا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت ( تمام علی الذی احسن میں فما فوقھا ) کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ کسائی اور ابو عبیدہ یہی کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہوگی ؟ قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں اس حدیث میں بھی یہی لفظ فوقھا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہوجائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ عابد اور معبود دونوں ہی بیحد کمزور ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لئے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے۔ دوسری جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں۔ اور جگہ فرمایا۔ دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں ( پوری طرح ) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔ " انہ " کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورة مدثر میں آیت ( وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً ) 74۔ المدّثر:31) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں ؟ ٭٭ صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔ فاسقین سے مراد منافق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔ حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔ اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علی پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں۔ انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہوگئے تھے۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا۔ پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے واللہ اعلم۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورة رعد میں بیان ہے کہ آیت ( افمن یعلم ) الخ کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا۔ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد ﷺ کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کردیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔ امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔ عہد سے مراد توحید اور نبی ﷺ کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت ( اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ) 7۔ الأعراف:172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا بلٰی بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت ( وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ) 2۔ البقرۃ :40) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم ؑ کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت ( وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ) 7۔ الأعراف:172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا، زمین میں فساد پھیلانا۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ ) 47۔ محمد:22) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو۔ ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔ خاسرون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں جیسے فرمان باری ہے۔ آیت ( اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ ) 13۔ الرعد:25) ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔ خاسرون جمع ہے خاسر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کرلی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہوگی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 27 الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖص اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا عہد ” عہد الست “ ہے ‘ جس کا ذکر سورة الأعراف میں آئے گا۔ یہ عہد عالم ارواح میں تمام ارواح انسانیہ نے کیا تھا ‘ ان میں میں بھی تھا ‘ آپ بھی تھے ‘ سب تھے۔ الغرض تمام کے تمام انسان جتنے آج تک دنیا میں آ چکے ہیں اور جو قیامت تک ابھی آنے والے ہیں ‘ اس عہد کے وقت موجود تھے ‘ لیکن صرف ارواح کی شکل میں تھے ‘ جسم موجود نہیں تھے۔ اور یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کا روحانی وجود مکمل وجود ہے اور اوّلاً تخلیق اسی کی ہوئی تھی۔ ” عہدالست “ میں تمام بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا : اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے ایک ہی جواب دیا : بَلٰی کیوں نہیں ! تو یہ جو فاسق ہیں ‘ نافرمان ہیں ‘ سرکش ہیں ‘ انہوں نے اس عہد کو توڑا اور اللہ کو اپنا مالک ‘ اپنا خالق اور اپنا حاکم ماننے کی بجائے خود حاکم بن کر بیٹھ گئے اور اس طرح کے دعوے کیے : اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ ” کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ “ غیر اللہ کی حاکمیتّ sovereignty کو تسلیم کرنا سب سے بڑی بغاوت ‘ سرکشی ‘ فسق اور نافرمانی ہے ‘ خواہ وہ ملوکیتّ کی صورت میں ہو یا عوامی حاکمیت popular sovereignty کی صورت میں۔وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ اللہ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ‘ یہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ مال کی طلب میں ‘ اس کے مال کو ہتھیانے کے لیے بھائی بھائی کو ختم کردیتا ہے۔ انسان اپنی ذاتی اغراض کے لیے ‘ اپنے تکبرّ اور تعلّی کی خاطر تمام اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ہماری شریعت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دو طرح کے تعلقات جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تعلق ہے بندے کا اللہ کے ساتھ۔ اس کا تعلق ” حقوق اللہ “ سے ہے۔ جبکہ ایک تعلق ہے بندوں کا بندوں کے ساتھ۔ یہ ” حقوق العباد “ سے متعلق ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اسے حاکم اور مالک سمجھو اور خود اس کے بندے بنو۔ جبکہ انسانوں کا حق یہ ہے کہ : کُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ اِخْوَانًا 3 ” سب آپس میں بھائی بھائی ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔ “ اس ضمن میں اہم ترین رحمی رشتہ ہے ‘ یعنی سگے بہن بھائی۔ پھر دادا دادی کی اولاد میں تمام چچا زاد وغیرہ cousins آجائیں گے۔ اس کے اوپر پردادا پردادی کی اولاد کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا۔ اسی طرح اوپر چلتے جائیں یہاں تک کہ آدم و حوا پر تمام انسان جمع ہوجائیں گے۔ تو رحمی رشتہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں فاسقین کی دو صفات بیان کردی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ انہیں قطع کرتے ہیں۔ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ” اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ “ متذکرہ بالا دونوں چیزوں کے نتیجے میں زمین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کی اطاعت سے باغی ہوجائیں یا آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں تو اس کا نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں نکلتا ہے۔اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ یہی لوگ ہیں جو بالآخر آخری اور دائمی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه ويقطعون ما أمر الله به أن يوصل ويفسدون في الأرض أولئك هم الخاسرون
سورة: البقرة - آية: ( 27 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 5 )Surah baqarah Ayat 27 meaning in urdu
اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ (اس وقت) موجود تھے
- اور نہ ان (بےسروسامان) لوگوں پر (الزام) ہے کہ تمہارے پاس آئے کہ ان کو
- اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی
- جو لوگ (خدا سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر خدا کی
- ایسے لوگوں کے لیے (نیچے) بچھونا بھی (آتش) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا
- اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لیے)
- بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے جو تم کو رزق دے؟
- اور ہم نے قریب کے آسمان کو (تاروں کے) چراغوں سے زینت دی۔ اور ان
- بات یہ ہے کہ جو بات اگلے (کافر) کہتے تھے اسی طرح کی (بات یہ)
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers