Surah An Nur Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾
[ النور: 27]
مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم) یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ شاید تم یاد رکھو
Surah An Nur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہےتاکہ مرد وعورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور پر زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اسْتِينَاسٌ کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ بعض نے تَسْتَأْنِسُوا کے معنی تَسْتَأْذِنُوا کے کئے ہیں، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے۔ اسی طرح آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کا یہ معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) اجازت طلب فرماتے، اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) واپس لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ ( صلى الله عليه وسلم ) دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جس میں بےپردگی کا امکان رہتا ہے ( ملاحظہ ہو صحيح بخاري، كتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثلاثا- مسند أحمد 3 / 138 أبو داود، كتاب الأدب، باب كم مرة يسلم الرجل في الاستئذان ) اسی طرح آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( البخاري، كتاب الديات، باب من اطلع في بيت قوم ففقئوا عينه فلا دية له- مسلم، كتاب الآداب، باب تحريم النظر في بيت غيره ) آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں میں، میں کہا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے۔ ( صحيح بخاري، كتاب الاستئذان باب إذا قال من ذا؟ قال أنا- ومسلم، كتاب الآداب باب كراهة قول المستأذن أنا إذا قيل من هذا؟ وأبو داود، كتاب الأدب )۔
( 2 ) یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں۔ صدیقہ ؓ چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جو ہر طرح سے طیب ہیں، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج و ایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی۔ اور یہ چونکہ حضور ﷺ کی بیوی ہیں، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کرلے جائے اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
ان آیات میں متعدد ایسے معاشرتی احکام دیے گئے ہیں جو ایک صاف ستھرا انسانی معاشرہ قائم کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں ‘ جس میں فحاشی اور بےحیائی کے لیے جگہ پانے کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو۔ اس سلسلے میں سورة بنی اسرائیل کا یہ حکم بڑا جامع اور بہت بنیادی نوعیت کا ہے : وَلاَ تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَسَآءَ سَبِیْلاً ” تم زنا کے قریب بھی مت پھٹکو ‘ یہ کھلی بےحیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے “۔ اس سے اسلام کا مدعا و منشا واضح ہوتا ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں ہر اس فعل اور طریقے کاِ سد بابّ کرنا چاہتا ہے جو فواحش کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو الگ الگ جنسوں یعنی عورت اور مرد کی صورت میں پیدا کر کے ایک حکمت اور مقصد کے تحت ان میں سے ہر ایک کے لیے اپنی مخالف جنس میں بےپناہ کشش رکھی ہے۔ یہ کشش یعنی جنسی خواہش ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے جسے ہر وقت لگام دے کر قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ چناچہ اسلام نے ہر ایسا اقدام کیا ہے جو انسان کے جنسی جذبے کو ایک خاص ڈسپلن کا پابند رکھنے میں معاون ہو اور ہر وہ راستہ بند کرنا ضروری سمجھا ہے جس پر چل کر انسان کے لیے جنسی بےراہ روی کی طرف مائل ہونے کا ذرا سا بھی احتمال ہو۔ یہی فکر و فلسفہ اسلام کے معاشرتی نظام کا بنیادی ستون ہے اور اس ستون کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے قرآن میں ایسے جامع اور دو ررس قسم کے احکام جاری کیے گئے ہیں جو ایسے معاملات سے متعلق چھوٹی چھوٹی جزئیات تک کا احاطہ کیے نظر آتے ہیں۔ ان میں گھر کی چار دیواری کا تقدس ‘ شخصی تخلیے privacy کا تحفظ ‘ ستر کا التزام ‘ پردے کا اہتمام ‘ غضِّ بصر سے متعلق ہدایات ‘ مخلوط محافل و مواقع کی حوصلہ شکنی جیسے احکام و اقدامات شامل ہیں۔آیت 27 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَآٰی اَہْلِہَا ط ” گھر کی چار دیواری کے تقدس اور اس کے مکینوں کے تخلیے privacy کے آداب کو ملحوظ رکھنے کے لیے یہ تاکیدی حکم ہے ‘ یعنی کسی کو کسی دوسرے کے گھر میں اس کی رضامندی اور اجازت کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اجازت لینے اور رضامندی معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملاقات کے لیے آنے والا شخص دروازے کے باہر سے اونچی آواز میں ”السلام علیکم “ کہے اور پوچھنے پر اپنی پہچان کرائے تاکہ اہل خانہ اسے اندر آنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرسکیں۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ کوئی کسی کے گھر میں بےدھڑک چلا آئے۔
ياأيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوتا غير بيوتكم حتى تستأنسوا وتسلموا على أهلها ذلكم خير لكم لعلكم تذكرون
سورة: النور - آية: ( 27 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 352 )Surah An Nur Ayat 27 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں
- کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا
- اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور
- کیا یہ (کافر) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس (جان نکالنے)
- جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے درجے والا ہے
- اور ابلتے ہوئے دریا کی
- تو کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟
- اور اگر تم نے اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس
- تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت
- اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں
Quran surahs in English :
Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers