Surah ahzab Ayat 46 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا﴾
[ الأحزاب: 46]
اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے ذریعے سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کرکے جو کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تورات میں نبی اکرم ﷺ کی صفات۔ عطابن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے کہا کہ حضور ﷺ کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں۔ تورات میں ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا، ڈرانے والا امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے، نہ بازاروں میں شور مچانے والا۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگذر کرتا ہے۔ اور معاف فرماتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہوجائیں۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں ( بخاری ) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا ؑ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہوجاؤ، میں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گذر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی۔ صدق و وفا اس کی عادت ہوگی۔ عفو درگذر اس کا خلق ہوگا۔ حق اس کی شریعت ہوگی۔ عدل اس کی سیرت ہوگی۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا۔ احمد اس کا نام ہوگا۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا۔ ان جانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ وہ موحد ہوں گے، مومن ہوں گے، اخلاص والے ہوں گے، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا۔ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا۔ میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے، برائیوں سے روکیں گے، نماز ادا کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، وعدے پورے کریں گے، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں، ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ حضرت علی ؓ اور حضرت معاذ ؓ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا سختی نہ کرنا، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے۔ طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے۔ جیسے ارشاد ہے ( وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41ڲ ) 4۔ النساء:41) یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور آیت میں ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول ﷺ گواہ ہیں۔ آپ مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے، اے نبی ! کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگذر کرو۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 46 { وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا } ” اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔ “ یہاں پر بِـاِذْنِہٖ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے ” مامور من اللہ “ ہو کر آتا ہے۔ ویسے تو اللہ کا جو بندہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ داعی الی اللہ ہے ‘ لیکن ایک عام داعی اور ایک رسول کی دعوت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق اس مثال سے سمجھئے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ گویا اصول شہریت ہے اور عام طور پر گلی محلے میں ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے ‘ اجتماعی طور پر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ماحول صاف رہے اور آلودگی نہ پھیلے ‘ اور اس کوشش کے اثرات معاشرے کے اندر کسی نہ کسی حد تک نظر بھی آتے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کا مقابلہ یا موازنہ اس محکمے کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جسے حکومت کی طرف سے خصوصی اختیارات کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہو ‘ اس محکمے کے چھوٹے بڑے کارندے اسی کام پر مامور ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتے ہوں۔ اسی طرح سے ملک کے دفاع کی مثال لی جاسکتی ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود کو دفاعِ وطن کے لیے تیار رکھے ‘ لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جب باقاعدہ ایک فوج تیار کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ چناچہ اس پہلو سے زیر مطالعہ آیت میں بِاِذْنِہٖ کے لفظ سے رسالت کے فرضِ منصبی کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کوئی عام داعی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کے لیے خصوصی طور پر مامور کر کے بھیجا ہے۔
Surah ahzab Ayat 46 meaning in urdu
اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان سے کہہ دو کہ) قبل اس کے کہ وہ دن جو ٹلے گا نہیں
- ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا
- ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا)
- اور (مال) جمع کیا اور بند کر رکھا
- بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا سر توڑ
- اور لوطؑ نے ان کو ہماری پکڑ سے ڈرایا بھی تھا مگر انہوں نے ڈرانے
- (پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن
- جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے
- (جس طرح ہم اور پیغمبر بھیجتے رہے ہیں) اسی طرح (اے محمدﷺ) ہم نے تم
- وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب جھپٹ لیا کریں گے جس (کے پینے) سے
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers