Surah ahzab Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا﴾
[ الأحزاب: 27]
اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا۔ اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس میں غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسا کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقض عہد کرکے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل ( عليه السلام ) آگئے اور کہا کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے ہتھیار رکھ دیے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں۔ چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اسی لئے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کر دی کہ عصر کی نماز وہاں جا کر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جو کم وبیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ ( رضي الله عنه ) کو اپنا حکم ( ثالث ) تسلیم کر لیا کہ وہ جو فیصلہ بابت دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان سے لڑنے والے لوگوں کو قتل اور بچوں، عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر االلہ تعالیٰ کا بھی ہے۔ اس کے مطابق ان کے جنگ جو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا۔ ( دیکھئے صحیح بخاری، باب غزوۂ خندق ) أَنْزَلَ قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظَاهَرُوهُمْ کافروں کی انہوں نے مدد کی۔
( 2 ) بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس وروم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ ( فتح القدیر )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کفار نے عین موقعہ پر دھوکہ دیا۔اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین و یہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے حضور ﷺ کا عہد و پیمان ہوچکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بیوفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کردیا پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں۔ قریش اور انکے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کرلیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا۔ آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آجاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہوگا۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہوگا۔ بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے حضور ﷺ کو اور صحابہ کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور حضور ﷺ مع اصحاب کے مظفر ومنصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ ؓ نے ہتھیار کھول دئے اور حضور ﷺ بھی ہتھیار اتاکر حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں گرد و غبار سے پاک صاف ہونے کے لئے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو حضرت جبرائیل ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ کیا آپ نے کمر کھول لی ؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت جبرائیل نے فرمایا لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آرہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں۔ حضور ﷺ نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ ؓ عنھم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا۔ نماز کا وقت صحابہ کو راستہ میں آگیا۔ تو بعض نے تو نماز ادا کرلی اور کہا کہ حضور کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ آپ نے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو خلیفہ بنایا حضرت علی ؓ کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ بھی صحابہ ؓ کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جاکر ان کے قلعہ کو گھیر لیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا۔ جب یہودیوں کے ناک میں دم آگیا اور تنگ حال ہوگئے تو انہوں نے اپنا حاکم حضرت سعد بن معاذ ؓ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق ویگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لئے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ حضرت سعد ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا ادھر حضرت سعد ؓ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا حضور ﷺ نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کرلیا کریں۔ حضرت سعد ؓ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی ﷺ پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کرسکوں اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خوب بہاتا رہے لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کرلوں تو میری موت کو موخر فرمانا۔ حضرت سعد ؓ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئے کہ آپ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ کے فیصلے پر اظہار رضامندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ ﷺ آدمی بھیج کر آپ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ آکر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنادیں۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گئے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئے حضرت خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں۔ آپ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا۔ دیکھئے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ کے بس میں ہیں وغیرہ لیکن حضرت سعد ؓ محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا۔ آخر آپ نے فرمایا وقت آگیا ہے کہ سعد ؓ اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں۔ جب حضرت سعد ؓ کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ ﷺ تھے تو آپ نے فرمایا لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لئے اٹھو چناچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو عزت و اکرام وقعت و احترام سے سواری سے اتارا یہ اس لئے تھا کہ اس وقت آپ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق ونافذ سمجھے جائیں۔ آپ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئے۔ آپ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہوگا ؟ حضور نے فرمایا ہاں کیوں نہیں ؟ کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہوگی ؟ آپ نے فرمایا یقینا پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی ؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اکرم ﷺ تھے۔ لیکن آپ کی طرف نہیں دیکھا آپ کی بزرگی اور عزت و عظمت کی وجہ سے، حضور ﷺ نے جواب دیا ہاں اس طرف والوں پر بھی۔ آپ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کرلیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے سعد ؓ تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے۔ پھر حضور ﷺ کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لئے گئے۔ ہم نے یہ کل واقعات اپنی کتاب السیر میں تفصیل سے لکھ دئیے ہیں۔ والحمد للہ۔ پس فرماتا ہے کہ جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے۔ اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آکر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی۔ " صیاصی " سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی صیاصی کہتے ہیں اس لئے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ ﷺ پر چڑھائی کرائی تھی۔ عالم جاہل برابر نہیں ہوتے۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہوگیا پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بےدست وپا رہ گئے۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے۔ کچھ قتل کردئیے گئے باقی قیدی کردیئے گئے۔ عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور کو کچھ تردد ہوا۔ فرمایا اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کردو ورنہ قیدیوں میں بٹھادو دیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا۔ ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی۔ حضرت سعد ؓ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھامتے چلے جا رہے تھے میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا ؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے یہ دلیری ؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے ؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو ؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ۔ جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے عمر فاروق ؓ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ حضرت طلحہ ؓ تھے انہوں نے حضرت عمر ؓ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے ؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے ؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں ؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے حضرت سعد ؓ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں۔ حضرت سعد ؓ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو۔ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا۔ مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مومنوں کی کفایت کردی ابو سفیان اور اسکے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عینیہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جاکر پنا گزین ہوگئے۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ ﷺ مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔ حضرت سعد ؓ کے لئے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا اسی وقت حضرت جبرائیل آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا فرمانے لگے آپ نے ہتھیار کھول دئیے ؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کرلیجئے ان پر چڑھائی کیجئے حضور نے فوراً ہتھیار لگا لئے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرادی۔ بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ نے ان سے پوچھا کیوں بھئی ؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی حضرت دحیہ کلبی ؓ گئے ہیں۔ حالانکہ تھے تو وہ حضرت جبرائیل لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل حضرت دحیہ کلبی سے ملتاجلتا تھا۔ اب آپ نے جاکر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آگئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو۔ رسول اللہ ﷺ تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرمادیں گے۔ انہوں نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے۔ انہوں نے یہ معلوم کرکے اسے تو نامنظور کردیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کردیتے ہیں آپ کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم حضرت سعد بن معاذ کو دیتے ہیں۔ آپ نے اسے بھی منظور فرمالیا۔ حضرت سعد ؓ کو بلایا آپ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کجھور کے درخت کی چھال کی گدی تھی آپ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے آپ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ پر پوشیدہ نہیں۔ آپ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقا پرواہ نہ کروں۔ جب حضور کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور نے فرمایا اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہمارا سید تو اللہ ہی ہے۔ آپ نے فرمایا اتارو۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا حضور نے فرمایا سعد ؓ ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کردو۔ آپ نے فرمایا ان کے بڑے قتل کردئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کرلیا جائے۔ آپ نے فرمایا سعد ؓ تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول کی پوری موافقت کی۔ پھر حضرت سعد ؓ نے دعا مانگی کہ اے اللہ اگر تیرے نبی ﷺ پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لئے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے۔ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چناچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہوگئے ؓ خود حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر رضی عنہ وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابوبکر ؓ کی آواز عمر ؓ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی۔ فی الواقع اصحاب رسول اللہ ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا آیت ( رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ 29 ) 48۔ الفتح:29) آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے۔ حضرت علقمہ ؓ نے پوچھا ام المومنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح رویا کرتے تھے ؟ فرمایا آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 27 { وَاَوْرَثَکُمْ اَرْضَہُمْ وَدِیَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ } ” اور اس نے تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمینوں ‘ ان کے گھروں اور ان کے اموال کا “ { وَاَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْہَا } ” اور اس زمین کا بھی جس پر ابھی تم نے قدم نہیں رکھے۔ “ اس فقرے میں ان تمام فتوحات کی طرف اشارہ موجود ہے جو بعد میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ اس لحاظ سے غزوئہ احزاب حضور ﷺ کی جدوجہد کے سفر میں ایک فیصلہ کن موڑ turning point ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں حضور ﷺ نے اہل ایمان کو خوشخبری بھی سنا دی تھی کہ : لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ 1 یعنی ” اس سال کے بعد قریش کبھی بھی تم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں گے ‘ بلکہ آئندہ تم ان پر چڑھائی کرو گے۔ “ حضور ﷺ کے اس فرمان کی صداقت اگلے ہی سال یعنی 6 ہجری میں اس وقت ظاہر ہوگئی جب آپ ﷺ چودہ سو صحابہ رض کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ اس سفر میں مسلمانوں نے احرام باندھ رکھے تھے۔ تلواروں کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور ہتھیار بھی نہیں تھا اور تلواریں بھی نیاموں میں تھیں۔ حضور ﷺ اپنے قافلے کے ساتھ جب مکہ کے قریب پہنچے تو یہ صورت حال گویا مشرکین مکہ کے گلے میں ایک ایسی ہڈی کی طرح پھنس کر رہ گئی جسے نہ وہ اگل سکتے تھے اور نہ نگل سکتے تھے۔ ایک طرف ان کی صدیوں پرانی روایات تھیں جن کے مطابق کسی بد ترین دشمن کو بھی حج یا عمرے سے روکا نہیں جاسکتا تھا اور دوسری طرف ان کی انا تھی جس کے تحت وہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے لیے یہ دونوں صورتیں ہی مشکل تھیں۔ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں تو کس جواز کے تحت روکیں اور اگر آنے کی اجازت دیں تو کس منہ سے ایسا کریں ! اس صورت حال میں حضور ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑائو کرنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان رض کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے مکہ بھیجا۔ حضرت عثمان رض کو مکہ میں کچھ زیادہ دیر رکنا پڑا تو مسلمان لشکر میں کسی طرح یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے انہیں شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے آپ رض کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ رض سے بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ چناچہ موقع پر موجود تمام صحابہ رض نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر حضرت عثمان رض کے خون کا بدلہ لینے کے لیے آخری دم تک لڑنے کا عہد کیا تھا۔ یہ بیعت علی الموت تھی اور تاریخ میں اسے ” بیعت ِرضوان “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب اس بیعت کی خبر مکہ پہنچی تو مشرکین کے چھکے ّچھوٹ گئے۔ انہوں نے سفارتی مہم کے ذریعے حضور ﷺ کو صلح کی پیش کش کی اور طویل مذاکرات کے بعدبالآخر فریقین کے مابین صلح حدیبیہ کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورة الفتح میں بایں الفاظ تبصرہ فرمایا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ” یقینا ہم نے آپ ﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی ہے۔ “ اس فرمانِ الٰہی کے اثرات وثمرات فوری طور پر ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ اگلے ہی سال 7 ہجری میں مسلمانوں نے یہودیوں کا مضبوط گڑھ خیبر فتح کرلیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا اور بیس سال کے اندر اندر اسلامی سلطنت کی حدود تین براعظموں تک وسیع ہوگئیں۔ آیت زیر نظر میں انہی فتوحات کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا } ” اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “
وأورثكم أرضهم وديارهم وأموالهم وأرضا لم تطئوها وكان الله على كل شيء قديرا
سورة: الأحزاب - آية: ( 27 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 421 )Surah ahzab Ayat 27 meaning in urdu
اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا اللہ ہر چیز پر قادر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت
- پیغمبر نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا (دین) لاؤں کہ جس رستے پر تم
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی
- کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے
- اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو
- تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے
- اور کافر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعید کب (پورا) ہوگا؟
- دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر
- اور دن کی قسم جب چمک اٹھے
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers