Surah Hadid Ayat 27 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ﴾
[ الحديد: 27]
پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
Surah Hadid Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) رَأْفَةٌ کےمعنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سےمراد حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کے حواری ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دیے۔ جیسے صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) ایک دوسرے کے لیے رحیم وشفیق تھے۔ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کے پیروکار تھے۔
( 2 ) رَهْبَانِيَّةٌ، رَهْبٌ ( خوف ) سے ہے یا رُهْبَانٌ ( درویش ) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں ” رے “ پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں ” رے “ پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحراء میں جا کر اللہ کی عبادت کرنا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نےتورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نےقبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جس کی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کو اندھی تقلید میں اس شہربدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبدوں میں محبوس کر لیا اور اس کے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قراردے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع ( خود گھڑنے ) سے تعبیر فرمایا ہے۔
( 3 ) یہ پچھلی بات ہی کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کاﺣﻜﻢ نہیں دیا تھا۔
( 4 ) یعنی ہم نے تو ان پر صرف رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہو گی۔
( 5 ) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضاجوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع ( بدعت ایجاد کرنے ) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔
( 6 ) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی فضیلت حضرت نوح ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کی اس فضیلت کو دیکھئے کہ حضرت نوح کے بعد سے لے کر حضرت ابراہیم تک جتنے پیغمبر آئے سب آپ ہی کی نسل سے آئے اور پھر حضرت ابراہیم ؑ کے بعد جتنے نبی اور رسول آئے سب کے سب آپ ہی کی نسل سے ہوئے جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 26 ) 57۔ الحدید :26) یہاں تک کہ بنو اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ نے حضرت محمد ﷺ کی خوش خبری سنائی۔ پس نوح اور ابراہیم صلوات اللہ علیہما کے بعد برابر رسولوں کا سلسلہ رہا حضرت عیسیٰ تک جنہیں انجیل ملی اور جن کی تابع فرمان امت رحمدل اور نرم مزاج واقع ہوئی، خشیت الٰہی اور رحمت خلق کے پاک اوصاف سے متصف۔ پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد لی تھی، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے یہ طریقہ نکالا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے، پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو پکارا آپ نے لبیک کہا آپ نے فرمایا سنو بنی اسرائیل کے بہتر گروہ ہوگئے جن میں سے تین نے نجات پائی، پہلے فرقہ نے تو بنی اسرائیل کی گمراہی دیکھ کر ان کی ہدایت کے لئے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ان کے بڑوں کو تبلیغ شروع کی لیکن آخر وہ لوگ جدال و قتال پر اترے آئے اور بادشاہ اور امراء نے جو اس تبلیغ سے بہت گھبراتے تھے ان پر لشکر کشی کی اور انہیں قتل بھی کیا قید بھی کیا ان لوگوں نے تو نجات حاصل کرلی، پھر دوسری جماعت کھڑی ہوئی ان میں مقابلہ کی طاقت تو نہ تھی تاہم اپنے دین کی قوت سے سرکشوں اور بادشاہوں کے دربار میں حق گوئی شروع کی اور اللہ کے سچے دین اور حضرت عیسیٰ کے اصلی مسلک کی طرف انہیں دعوت دینے لگے، ان بدنصیبوں نے انہیں قتل بھی کرایا آروں سے بھی چیرا اور آگ میں بھی جلایا جسے اس جماعت نے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا اور نجات حاصل کی، پھر تیسری جماعت اٹھی یہ ان سے بھی زیادہ کمزور تھے ان میں طاقت نہ تھی کہ اصل دین کے احکام کی تبلیغ ان ظالموں میں کریں اس لئے انہوں نے اپنے دین کا بچاؤ اسی میں سمجھا کہ جنگلوں میں نکل جائیں اور پہاڑوں پر چڑھ جائیں عبادت میں مشغول ہوجائیں اور دنیا کو ترک کردیں انہی کا ذکر رہبانیت والی آیت میں ہے، یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں تہتر فرقوں کا بیان ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اجراء نہیں ملے گا جو مجھ پر ایمان لائیں اور میری تصدیق کریں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ایسے ہیں جو مجھے جھٹلائیں اور میرا خلاف کریں، حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں نے حضرت عیسیٰ کے بعد توریت و انجیل میں تبدیلیاں کرلیں، لیکن ایک جماعت ایمان پر قائم رہی اور اصلی تورات و انجیل ان کے ہاتھوں میں رہی جسے وہ تلاوت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان لوگوں نے ( جنہوں نے کتاب اللہ میں رد و بدل کرلیا تھا ) اپنے بادشاہوں سے ان سچے مومنوں کی شکایت کی کہ یہ لوگ کتاب اللہ کہہ کر جس کتاب کو پڑھتے ہیں اس میں تو ہمیں گالیاں لکھی ہیں اس میں لکھا ہوا ہے جو کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں، پھر یہ لوگ ہمارے اعمال پر بھی عیب گیری کرتے رہتے ہیں، پس آپ انہیں دربار میں بلوایئے اور انہیں مجبور کیجئے کہ یا تو وہ اسی طرح پڑھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور ویسا ہی عقیدہ ایمان رکھیں جیسا ہمارا ہے ورنہ انہیں بدترین عبرت ناک سزا دیجیے، چناچہ ان سچے مسلمانوں کو دربار میں بلوایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یا تو ہماری اصلاح کردہ کتاب پڑھا کرو اور تمہارے اپنے ہاتھوں میں جو الہامی کتابیں انہیں چھوڑ دو ورنہ جان سے ہاتھ دھو لو اور قتل گاہ کی طرف قدم بڑھاؤ، اس پر ان پاک بازوں کی ایک جماعت نے کہا کہ تم ہمیں ستاؤ نہیں تم اونچی عمارت بنادو ہمیں وہاں پہنچا دو اور ڈوری چھڑی دیدو ہمارا کھانا پینا اس میں ڈال دیا کرو ہم اوپر سے گھسیٹ لیا کریں گے نیچے اتریں گے ہی نہیں اور تم میں آئیں گے ہی نہیں، ایک جماعت نے کہا سنو ہم یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں تمہاری بادشاہت کی سرزمین سے باہر ہوجاتے ہیں چشموں، نہروں، ندیوں، نالوں اور تالابوں سے جانوروں کی طرح منہ لگا کر پانی پیا کریں گے اور جو پھول پات مل جائیں گے ان پر گزارہ کرلیں گے۔ اس کے بعد اگر تم ہمیں اپنے ملک میں دیکھ لو تو بیشک گردن اڑا دینا، تیسری جماعت نے کہا ہمیں اپنی آبادی کے ایک طرف کچھ زمین دیدو اور وہاں حصار کھینچ دو وہیں ہم کنویں کھود لیں گے اور کھیتی کرلیا کریں گے تم میں ہرگز نہ آئیں گے۔ چونکہ اس اللہ پرست جماعت سے ان لوگوں کی قریبی رشتہ داریاں تھیں اس لئے یہ درخواستیں منظور کرلی گئیں اور یہ لوگ اپنے اپنے ٹھکانے چلے گئے، لیکن ان کے ساتھ بعض اور لوگ بھی لگ گئے جنہیں دراصل علم و ایمان نہ تھا تقلیداً ساتھ ہو لیے، ان کے بارے میں یہ آیت ( وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَان اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا 27 ) 57۔ الحدید :27) نازل ہوئی، پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور انور ﷺ کو مبعوث فرمایا اس وقت ان میں سے بہت کم لوگ رہ گئے تھے آپ کی بعثت کی خبر سنتے ہی خانقاہوں والے اپنی خانقاہوں سے اور جنگلوں والے اپنے جنگلوں سے اور حصار والے اپنے حصاروں سے نکل کھڑے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ پر ایمان لائے، آپ کی تصدیق کی جس کا ذکر اس آیت میں ہے ( یا ایھا الذین امنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورا تمشون بہ ) الخ، یعنی ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تمہیں اللہ اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا ( یعنی حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور پھر حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کا ) اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو ( یعنی قرآن و سنت ) تاکہ اہل کتاب جان لیں ( جو تم جیسے ہیں ) کہ اللہ کے کسی فضل کا انہیں اختیار نہیں اور سارا فضل اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔ یہ سیاق غریب ہے اور ان دونوں پچھلی آیتوں کی تفسیر اس آیت کے بعد ہی آرہی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ابو یعلی میں ہے کہ لوگ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس مدینہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خلافت کے زمانہ میں آئے، آپ اس وقت امیر مدینہ تھے جب یہ آئے اس وقت حضرت انس نماز ادا کر رہے تھے اور بہت ہلکی نماز پڑھ رہے تھے جیسے مسافرت کی نماز ہو یا اس کے قریب قریب جب سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے فرض نماز پڑھی یا نفل ؟ فرمایا فرض اور یہی نماز رسول اللہ ﷺ کی تھی، میں نے اپنے خیال سے اپنی یاد برابر تو اس میں کوئی خطا نہیں کی، ہاں اگر کچھ بھول گیا ہوں تو اس کی بابت نہیں کہہ سکتا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ تم پر سختی کی جائے گی، ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی اور ان پر بھی سختی کی گئی پس ان کی بقیہ خانقاہوں میں اور گھروں میں اب بھی دیکھ لو ترک دنیا کی ہی وہی سختی تھی جسے اللہ نے ان پر واجب نہیں کیا تھا۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے کہا آیئے سواریوں پر چلیں اور دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔ حضرت انس نے فرمایا بہت اچھا ہم سوار ہو کر چلے اور کئی ایک بستیاں دیکھیں جو بالکل اجڑ گئی تھیں اور مکانات اوندھے پڑے ہوئے تھے تو ہم نے کہا ان شہروں سے آپ واقف ہیں ؟ فرمایا خوب اچھی طرح بلکہ ان کے باشندوں سے بھی انہیں سرکشی اور حسد نے ہلاک کیا۔ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور سرکشی اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ آنکھ کا بھی زنا ہے ہاتھ اور قدم اور زبان کا بھی زنا ہے اور شرمگاہ اسے سچ ثابت کرتی ہے یا جھٹلاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں ہر نبی کیلئے رہبانیت تھی اور میری امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ ایک شخص حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھ سے وہ سوال کیا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے کی، یہی تمام نیکیوں کا سر ہے اور تو جہاد کو لازم پکڑے رہ یہی اسلام کی رہبانیت ہے اور ذکر اللہ اور تلاوت قرآن پر مداومت کر۔ وہی آسمان میں، زمین میں تیری راحت و روح ہے اور تیری یاد ہے۔ یہ روایت مسند احمد میں ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 27{ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَـیْنٰـہُ الْاِنْجِیْلَ } ” پھر ہم نے بھیجے ان کے نقش قدم پر اپنے بہت سے رسول علیہ السلام اور پھر ان کے پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو اور اسے ہم نے انجیل عطا فرمائی “ آیت 26 اور 27 میں حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء و رسل - کا ذکر تمہید کے طور پر آیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اصل میں یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جن کے پیروکاروں نے رہبانیت کی ابتدا کی تھی۔ { وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَــۃً وَّرَحْمَۃً } ” اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں بڑی نرمی اور رحمت پیدا کردی۔ “ رافت اور رحمت ملتے جلتے مفہوم کے دو الفاظ ہیں۔ رافت دراصل وہ انسانی جذبہ ہے جس کے تحت انسان کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ بقول امیر مینائی ؎خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔسارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے !یعنی یہ جذبہ ٔ رافت ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کسی کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے ‘ جبکہ رحمت کا جذبہ انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دوسرے انسان کی تکلیف دور کرنے کے لیے کوشش کرے۔ گویا رافت کا جذبہ بنیادی طور پر انسان کے دل میں تحریک پیدا کرتا ہے اور اس کے ردّعمل reflex action کا اظہار جذبہ رحمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے رافت اور رحمت باہم تکمیلی complementary نوعیت کے جذبات ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے گویا تصدیق فرمائی گئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے دلوں کو خصوصی طور پر رافت و رحمت کے جذبات سے مزین کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود بھی مزاج کے اعتبار سے انتہائی نرم اور رقیق القلب تھے ‘ آپ علیہ السلام کی شخصیت میں سختی کا عنصر بالکل نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام کی شخصیت کے اس پہلو کا اندازہ اس مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو پوچھا کہ کیا تم چوری کر رہے ہو ؟ اس نے کہا نہیں میں چوری تو نہیں کر رہا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اچھا تو پھر میری آنکھ نے غلط دیکھا ہے۔ چناچہ آپ علیہ السلام کی شخصیت کے زیر اثر آپ علیہ السلام کے حواریین کی طبیعتوں میں بھی رافت ‘ رحمت ‘ رقت ِ قلب اور شفقت کے غیر معمولی جذبات پیدا ہوگئے تھے۔ یہ جذبات بلاشبہ اپنی جگہ مستحسن ہیں۔ خود حضور ﷺ کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے سورة التوبة میں فرمایا ہے کہ آپ ﷺ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں : { بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ } رافت اور رء وف ایک ہی مادے سے ہیں۔ بہرحال شیطان نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے مزاج کی نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ان جذبات کا رخ رہبانیت کی طرف موڑ دیا۔ { وَرَھْبَانِیَّۃَ نِابْتَدَعُوْھَا } ” اور رہبانیت کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کی تھی “ { مَا کَتَـبْنٰـھَا عَلَیْھِمْ اِلاَّ ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ } ” ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا تھا مگر اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں “ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ رہبانیت انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اختیار کی تھی ‘ اس میں ان کی کسی بدنیتی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے تو ان پر کچھ لازم نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی رضا تلاش کریں۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس کشی self annihilation ‘ ترکِ دنیا ‘ رہبانیت اور تجرد بغیر نکاح کے کی زندگی بسر کرنے کا راستہ اختیار کرلیا۔ بہرحال حقیقت میں یہ اللہ کی رضا کا راستہ نہیں تھا۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا درست راستہ تو جہاد کا راستہ ہے : { وَابْتَغُوْا اِلَـیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ } المائدۃ : 35 ” اللہ کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو ! “ یعنی باطل کو ملیامیٹ کرنے ‘ حق کو غالب کرنے ‘ ظلم و ناانصافی کو اکھاڑ پھینکنے اور عدل و قسط کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے مجاہد بن جائو ! اس راستے پر چلتے ہوئے جان و مال کی قربانیاں دو ‘ فاقے برداشت کرو اور ہر طرح کی تکالیف و مشکلات کا سامنا کرو۔ بہرحال شیطان نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو اللہ کے مقرب بننے اور اس کی رضا تلاش کرنے کا یہ راستہ ان کی نظروں سے اوجھل کر کے رہبانیت کے راستے پر ڈال دیا تاکہ اللہ کے نیک اور مخلص بندے تمدن کے معاملات سے لاتعلق رہیں اور معاشرے کے اندر ابلیسیت کے ننگے ناچ کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ ہو۔ دنیا میں ظالموں اور شریروں کو کھلی چھوٹ حاصل ہو اور ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ علامہ اقبال نے ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں اس کی بہترین تعبیر کی ہے کہ ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں کو ہدایات دیتے ہوئے ” مومن “ کے بارے میں کہا کہ ؎مست رکھو ذکر و فکر صبح گا ہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے ! { فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا } ” پھر وہ اس کی رعایت بھی نہ کرسکے جیسا کہ اس کی رعایت کرنے کا حق تھا۔ “ دراصل انسان کے لیے اپنے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلینا تو آسان ہے مگر پھر ساری عمر اس فیصلے کو نبھانا بہت مشکل ہے۔ یہی مشکل رہبانیت کا راستہ اختیار کرنے والے لوگوں کو پیش آئی۔ راہب اور راہبائیں بظاہر تو مجرد زندگی بسر کرنے کا عہد کرتے لیکن پھر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زناکاریوں میں ملوث ہوجاتے۔ ان کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ راہب خانوں کے تہہ خانے حرامی بچوں کے قبرستان بن گئے۔ History of Christian Monasticism پر لکھی گئی کتابوں میں اس بارے میں لرزہ خیز تفصیلات ملتی ہیں۔ دراصل انسان کے جنسی جذبے کو غیر فطری طور پر دبانا ایسا ہی ہے جیسے بہتے دریا پر بند باندھنا۔ دریا کے پانی کو مناسب راستہ دے کر تو اس پر بند باندھا جاسکتا ہے لیکن دریا کے پورے پانی کو روکنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔ ظاہر ہے اگر کہیں کوئی ایسی کوشش ہوگی تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ یہ لوگ خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ بہت منہ زور ہے۔ سگمنڈ فرائڈ عیسائیوں کے گھر کا آدمی ہے اور اس کی گواہی گویا ” شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا “ کا درجہ رکھتی ہے۔ انسان کے جنسی جذبے کو وہ تمام جذبات پر غالب اور باقی تمام جذبات کا محرک قرار دیتا ہے۔ اگرچہ میں ذاتی طور پر فرائڈ کے اس تجزیے سے متفق نہیں ہوں اور میری یہ رائے اکیلے فرائڈ یا اس کے اس تجزیے کے بارے میں ہی نہیں ‘ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بیشتر مغربی فلاسفر انسانی زندگی پر فلسفیانہ بحث کے دوران اکثر غلط بینی اور کج روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ جیسے فرائڈ کو ہر طرف سیکس ہی سیکس نظر آیا ‘ کارل مارکس کی نظریں انسان کے پیٹ پر مرکوز ہو کر رہ گئیں ‘ جبکہ ایڈلر صاحب کو انسان کے بڑا بننے کا جذبہ urge to dominate ہی ہر طرف چھایا ہوا دکھائی دیا۔ بہرحال مذکورہ فلاسفرز نے اپنے اپنے مطالعے اور تجزیے میں انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے اور بہت سے دوسرے اہم پہلوئوں کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے۔ لہٰذا ان کی ایسی آراء جزوی طور پر ہی درست تسلیم کی جاسکتی ہیں۔ بہرحال اگر یہ درست نہ بھی ہو کہ انسان کا جنسی جذبہ اس کے تمام جذبوں پر غالب اور اس کے باقی تمام جذبوں کا محرک ہے تو بھی اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ انسان کا یہ جذبہ بہت منہ زور ہے اور اس کو غیر فطری طریقے سے قابو میں لانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس جذبے کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے نکاح کا فطری راستہ تجویز کیا ہے۔ رہبانیت کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقے زیادہ تر چونکہ غیر فطری تھے اس لیے اسے اختیار کرنے والے لوگ اس کا حق ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ { فَاٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ } ” تو ہم نے ان میں سے ان لوگوں کو ان کا اجر دیا جو ایمان لے آئے۔ “ ایک رائے کے مطابق یہ عیسائیوں کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کے زمانے میں صاحب ایمان تھے ‘ لیکن اس سے ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لا کر مسلمان ہوگئے انہیں ان کا اجر دیا جائے گا۔ { وَکَثِیْـرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ۔ } ” لیکن ان کی اکثریت فاسقوں پر مشتمل ہے۔ “
ثم قفينا على آثارهم برسلنا وقفينا بعيسى ابن مريم وآتيناه الإنجيل وجعلنا في قلوب الذين اتبعوه رأفة ورحمة ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان الله فما رعوها حق رعايتها فآتينا الذين آمنوا منهم أجرهم وكثير منهم فاسقون
سورة: الحديد - آية: ( 27 ) - جزء: ( 27 ) - صفحة: ( 541 )Surah Hadid Ayat 27 meaning in urdu
اُن کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسیٰؑ ابن مریم کو مبعوث کیا اور اُس کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی اُن کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جس روز قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں) ایک
- (یعنی) شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں
- یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔ اور یہی
- قابل ادب ورقوں میں (لکھا ہوا)
- اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خدا پورا پورا صلہ
- کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے؟ بات یہ
- کہو کہ خدا ہی تم کو اس (تنگی) سے اور ہر سختی سے نجات بخشتا
- اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو۔ وہ بھی نہایت سچے نبی تھے
- لوگو! اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کردے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو
- سو جہاں تک ہوسکے خدا سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس
Quran surahs in English :
Download surah Hadid with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hadid mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hadid Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers