Surah Fussilat Ayat 53 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾
[ فصلت: 53]
ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے
Surah Fussilat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا۔ یعنی أَنَّهُ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفَاقٌ ، أُفُقٌ کی جمع ہے۔ کنارہ، مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ، اور انہار وبحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط و مواد اور ہیئتوں پرمرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب و حکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے، جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی۔
( 2 ) استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال وافعال کے دیکھنے کے لیے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد ( صلى الله عليه وسلم ) پر نازل ہوا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے کہ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہوگا ؟ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہوگا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کردیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الیٰ کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب وجبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، بیماری، تندرستی، تنگی، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں۔ شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ پیغمبر صاحب ﷺ سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک ؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَشْهَدُوْنَ ۭوَكَفٰي باللّٰهِ شَهِيْدًا01606ۭ ) 4۔ النساء:166) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے پھر فرماتا ہے کہ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لئے بےفکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لئے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے۔ آپ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے واللہ اعلم۔ پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز پر اس کا احاطہ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 53{ سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ } ” عنقریب ہم انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی “ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جانوں اور زمین و آسمان کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مبرہن انداز میں ان لوگوں کے سامنے آتی چلی جائیں گی۔ { حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ } ” یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ “ اس آیت میں دراصل معلومات کے اس explosion کی طرف اشارہ ہے جو سائنسی ترقی کے باعث آج کے دور میں ممکن ہوا ہے۔ موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔ اس دور کی تاریخ زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانی ہے اور سائنسی ترقی میں یہ برق رفتاری جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اسے شروع ہوئے تو ابھی نصف صدی ہی ہوئی ہے۔ چناچہ پچھلی نصف صدی سے سائنسی ترقی کے سبب مسلسل حیرت انگیز انکشافات ہو رہے ہیں اور آئے روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ان سائنسی معلومات کے اکتشافات اور حقائق کے بےنقاب ہونے سے بتدریج قرآن کا حق ہونا ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دورئہ ترجمہ قرآن کے آغاز میں ” تعارفِ قرآن “ کے تحت اعجازِ قرآن کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ ان تمام پہلوئوں کا احصاء اور احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت اعجازِ قرآن کے جس پہلو نے اہل ِعرب کو سب سے زیادہ متاثر بلکہ مسحور کیا تھا وہ اس کی فصاحت ‘ بلاغت اور ادبیت تھی۔ اس وقت قرآن نے عرب بھر کے شعراء ‘ خطباء اور فصحاء کو ان کے اپنے میدان میں چیلنج کیا کہ اگر تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھائو۔ یہ چیلنج انہیں اس میدان میں دیا گیا تھا جس کے شہسوار ہونے پر انہیں خود اپنے اوپر ناز تھا اور جس کے نشیب و فراز کو وہ خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ نزولِ قرآن کے وقت عربوں کے ہاں چونکہ شاعری اور سخن وری و سخن فہمی کا بہت چرچا تھا اس لیے اس دور میں قرآن نے اپنے اسی ” اعجاز “ کو نمایاں کیا تھا۔ آج جبکہ سائنس کا دور ہے تو آج اعجازِ قرآن کے سائنسی پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ قرآن نے انسان کو کائنات میں بکھری ہوئی آیاتِ الٰہیہ کا مشاہدہ کرنے اور ان پر غور کرنے کی بار بار دعوت دی ہے ‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس میدان میں چودہ سو سال پہلے کے مشاہدے اور آج کے مشاہدے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے کا انسان کائنات کے عجائبات کو ننگی آنکھ سے دیکھتا تھا جبکہ آج کے انسان کو بہت بڑی بڑی ٹیلی سکوپس ‘ الیکٹرانک مائیکرو سکوپس اور نہ جانے کون کون سی سہولیات میسر ہیں۔ بہرحال آج خصوصی محنت اور کوشش سے یہ حقیقت دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ جن حقائق تک سائنس آج پہنچ پا رہی ہے قرآن نے بنی نوع انسان کو چودہ صدیاں پہلے ان سے متعارف کر ادیا تھا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ابھی تک کسی مسلمان اسکالر کو قرآن اور سائنسی معلومات کا تقابلی مطالعہ comparative study کرکے یہ ثابت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اب تک کے تمام سائنسی انکشافات قرآن کی فراہم کردہ معلومات کے عین مطابق ہیں۔ حال ہی میں فرانسیسی سرجن ڈاکٹر موریس بوکائی [ Maurice Bucaile 1920- 1998 ] نے ” بائبل ‘ قرآن اور سائنس “ The Bible , The Quran and Science کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ‘ جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ اب تک جو بھی سائنسی حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف قرآن میں دی گئی تفصیلات کے عین مطابق ہیں بلکہ ان سب کے مطالعہ سے قرآن کی حقانیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اپنی اسی تحقیق کی بدولت موصوف سرجن کو ایمان کی دولت بھی نصیب ہوئی۔ قرآن کی بعض آیات تو اگرچہ آج بھی سائنسی حوالے سے تحقیق طلب ہیں ‘ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب تک سامنے آنے والے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیات و عبارات کے مفاہیم و مطالب مزید نکھرکر سامنے آئے ہیں۔ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن کے بعض الفاظ کے جو معانی پرانے زمانے میں سمجھے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے ہیں اور ان کی جگہ ان الفاظ کے زیادہ واضح اور زیادہ منطقی معانی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً لفظ عَلَقَہ کا وہ مفہوم جو قبل ازیں سورة المؤمنون کی آیت 14 کے ضمن میں بیان ہوا ہے زیادہ بہتر اور درست ہے۔ اور لفظ ” فائدہ “ اور ” فواد “ کی وہ وضاحت جو سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت دی گئی ہے زیادہ واضح اور منطقی ہے۔ اسی طرح اجرام سماویہ کے بارے میں قرآنی الفاظ { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ۔ } یٰسٓ کا وہ مفہوم جو آج کے انسان کو معلوم ہوا ہے وہ پرانے زمانے کے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ‘ بلکہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اجرامِ فلکی اور ان کی گردش سے متعلق مختلف زمانوں میں مختلف موقف اختیار کیے گئے۔ کسی زمانے میں انسان سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج حرکت میں ہے۔ پھر اسے یوں لگا جیسے سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ حتیٰ کہ آج کے انسان نے اپنی تحقیق و جستجو سے یہ ثابت کردیا کہ سچ یہی ہے : { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ 4 } کہ یہ سب ہی اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ متحرک ہے ‘ حتیٰ کہ ہر ایٹم atom کے اندر اس کے اجزاء الیکٹرانز ‘ پروٹانز اور نیوٹرانز بھی بےتابانہ مسلسل گردش میں ہیں۔ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی ترجمانی کی ہیـ: ؎ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ! موجودہ دور میں اگرچہ مسلمانوں کو قرآن اور سائنس کے حوالے سے خصوصی اہتمام کے ساتھ تحقیق و تدقیق کرنے کی ضرورت ہے ‘ لیکن ایسی کسی تحقیق کے دوران خواہ مخواہ تکلف کرنے اور زبردستی کھینچ تان کر کے قرآن کے دور ازکار مفاہیم نکالنے کی کوشش میں نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ جہاں پر عقلی اور سائنسی طور پر بات سمجھ میں نہ آئے وہاں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ابھی بات واضح نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے : { کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج } آل عمران : 7۔ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جو بات آج واضح نہیں ہے وہ واضح ہوجائے گی ‘ اور خارج کی دنیا میں اس حوالے سے جو حقائق بھی منکشف ہوں گے وہ قرآن کے الفاظ کے عین مطابق ہوں گے۔ ان شاء اللہ ! البتہ جن سائنسی حقائق کی اب تک قرآن کے ساتھ مطابقت ثابت ہوچکی ہے انہیں عام کر کے قرآن کی حقانیت کے سائنٹفک ثبوت کے طور پر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آیت زیر مطالعہ میں فعل مضارع سَنُرِیْہِمْ سے پہلے ” س “ کی وجہ سے اس لفظ کے مفہوم میں خصوصی طور پر مستقبل کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی مستقبل میں ہم انہیں اپنی ایسی نشانیاں دکھائیں گے جن سے قرآن کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ اس ” مستقبل “ کا احاطہ کرنے کی کوشش میں اگر چشم تصور کو جنبش دی جائے تو اس کی حدود نزول قرآن کے دور کی فضائوں سے لے کر زمانہ قیامت کی دہلیز تک وسعت پذیر نظر آئیں گی۔ آج وقت کی شاہراہ پر انسانی علم کی برق رفتاری کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ انسانی تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خلاء کی پہنائیوں کے راز اس کے سامنے ایک ایک کر کے بےنقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سمندروں کی اتھاہ گہرائیاں اس کی عمیق نظری کے سامنے سرنگوں ہیں۔ قطب شمالی Arctic اور قطب جنوبی Antarctic سمیت زمین کا چپہ چپہ ہر پہلو سے نت نئی تحقیق کی زد میں آچکا ہے۔ غرض سائنسی ترقی کا یہ ” جن “ کہکشائوں کی بلندیوں سے لے کر تحت الثریٰ ّکی گہرائیوں تک معلومات کے خزانے اکٹھے کر کے بنی نوع انسان کے قدموں میں ڈالتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن الحمد للہ ! اس تحقیق کے ذریعے سے اب تک جو حقائق بھی سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب قرآن کی حقانیت پر گواہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے علم و تحقیق کا یہ قافلہ وقت کی شاہراہ پر اپنا سفر قیامت تک جاری رکھے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس سفر کے دوران ایجادو دریافت کے میدان میں انسان کو جو کامیابیاں بھی نصیب ہوں گی اور انفس و آفاق کی دنیائوں کے جو جو راز بھی منکشف ہوں گے وہ سب کے سب بالآخر قرآن حکیم کی حقانیت پر مہر ِتصدیق ثبت کرتے چلے جائیں گے۔ { اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ } ” کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا ربّ ہرچیز پر گواہ ہے ! “ کائنات کی ہرچیز اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ لیکن اس نے قرآن میں صرف اسی حد تک حقائق کا ذکر کیا ہے جس حد تک انسان انہیں سمجھ سکتا ہے اور اسی انداز میں ان کا ذکر کیا ہے جس انداز میں انسانی فہم و شعور کی رسائی ان تک ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے وہ حقائق جن تک آج کے انسان کی تدریجاً رسائی ہوئی ہے اگر وہ آج سے پندرہ سو سال پہلے من و عن بیان کردیے جاتے تو اس وقت انہیں کون سمجھ سکتا تھا۔
سنريهم آياتنا في الآفاق وفي أنفسهم حتى يتبين لهم أنه الحق أولم يكف بربك أنه على كل شيء شهيد
سورة: فصلت - آية: ( 53 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 482 )Surah Fussilat Ayat 53 meaning in urdu
عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے
- اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی
- (پروردگار) انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ تو تُو ان کو اور گمراہ
- (یہ) بہت سے اگلے لوگوں میں سے ہیں
- اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی
- ان سب (عادتوں) کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت ناپسند ہے
- اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کی تعریف ہے۔ اور تیسرے پہر بھی اور جب
- اے یحییٰ (ہماری) کتاب کو زور سے پکڑے رہو۔ اور ہم نے ان کو لڑکپن
- اور کچھ شک نہیں کہ یہ برحق قابل یقین ہے
Quran surahs in English :
Download surah Fussilat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Fussilat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Fussilat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers