Surah Talaq Ayat 3 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الطلاق کی آیت نمبر 3 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Talaq ayat 3 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾
[ الطلاق: 3]

Ayat With Urdu Translation

اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔ اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا۔ خدا اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے۔ خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے

Surah Talaq Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔
( 2 ) تنگیوں کے لیے بھی اور آسانیوں کے لیے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہو جاتے ہیں۔ بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


عائلی قانون ارشاد ہوتا ہے کہ عدت والی عورتوں کی عدت جب پوری ہونے کے قریب پہنچ جائے تو ان کے خاوندوں کو چاہئے کہ دو باتوں میں سے ایک کرلیں یا تو انہیں بھلائی اور سلوک کے ساتھ اپنے ہی نکاح میں روک رکھیں یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع کر کے باقاعدہ اس کے ساتھ بود و باش رکھیں یا انہیں طلاق دے دیں، لیکن برا بھلا کہے بغیر گالی گلوچ دیئے بغیر سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بغیر بھلائی اچھائی اور خوبصورتی کے ساتھ۔ ( یہ یاد رہے کہ رجعت کا اختیار اس وقت ہے جب ایک طلاق ہوئی ہو یا دو ہوئی ہوں ) پھر فرمایا ہے اگر رجعت کا ارادہ ہو اور رجعت کرو یعنی لوٹا لو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ رکھ لو، ابو داؤد اور اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عمران بن حصیص ؓ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے پھر اس سے جماع کرتا ہے نہ طلاق پر گواہ رکھتا ہے نہ رجعت پر تو آپ نے فرمایا اس نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت رجوع کیا طلاق پر بھی گواہ رکھنا چاہئے اور رجعت پر بھی، اب دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ حضرت عطا ؒ فرماتے ہیں نکاح، رجعت بغیر دو عادل گواہوں کے جائز نہیں جیسے فرمان اللہ ہے ہاں مجبوی ہو تو اور بات ہے، پھر فرماتا ہے گواہ مقرر کرنے اور سچی شہادت دینے کا حکم انہیں ہو رہا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اللہ کی شریعت کے پابند اور عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہوں۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں رجعت پر گواہ رکھنا واجب ہے گو آپ سے ایک دوسرا قول بھی مروی ہے اسی طرح نکاح پر گواہ رکھنا بھی آپ واجب بتاتے ہیں ایک اور جماعت کا بھی یہی قول ہے، اس مسئلہ کو ماننے والی علماء کرام کی جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ رجعت زبانی کہے بغیر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ گواہ رکھنا ضروری ہے اور جب تک زبان سے نہ کہے گواہ کیسے مقرر کئے جائیں گے پھر فرماتا ہے کہ جو شخص احکام اللہ بجا لائے اس کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مخلصی پیدا کردیتا ہے ایک اور جگہ ہے اس طرح رزق پہنچاتا ہے کہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میرے سامنے رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے ابوذر اگر تمام لوگ صرف اسے ہی لے لیں تو کافی ہے، پھر آپ نے بار بار اس کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ مجھے اونگھ آنے لگی پھر آپ نے فرمایا ابوذر تم کیا کرو گے جب تمہیں مدینہ سے نکال دیا جائے گا ؟ جواب دیا کہ میں اور کشادگی اور رحمت کی طرف چلا جاؤں گا یعنی مکہ شریف کو، وہیں کا کبوتر بن کر رہ جاؤں گا، آپ نے فرمایا پھر کیا کرو گے جب تمہیں وہاں سے بھی نکالا جائے ؟ میں نے کہا شام کی پاک زمین میں چلا جاؤ گا فرمایا جب شام سے نکالا جائے گا تو کیا کرے گا ؟ میں نے کہا حضور ﷺ اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تو اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ کر مقابلہ پر اتر آؤں گا، آپ نے فرمایا کیا میں تجھے اس سے بہتر ترکیب بتاؤں ؟ میں نے کہا ہاں حضور ﷺ ضرور ارشاد ہو فرمایا سنتا رہ اور مانتا رہ اگرچہ حبشی غلام ہو، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بہت ہی جامع آیت ( ترجمہ ) ہے اور سب سے زیادہ کشیادگی کا وعدہ اس آیت ( ترجمہ ) الخ، میں ہے، مسند احمد میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ جو شخص بکثرت استغفار کرتا رہے اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات اور ہر تنگی سے فراخی دے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں کا اسے خیال و گمان تک نہ ہو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کے ہر کرب و بےچینی سے نجات دے گا، ربیع فرماتے ہیں لوگوں پر کام بھاری ہو اس پر آسان ہوجائے گا، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دے گا اللہ اسے نکاسی اور نجات دے گا، ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اگر چاہے دے اگر نہ چاہے نہ دے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں تمام امور کے شبہ سے اور موت کی تکیف سے بچا لے گا اور روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں کا گمان بھی نہ ہو، حضرت سدی فرماتے ہیں یہاں اللہ سے ڈرنے کی یہ معنی ہیں کہ سنت کے مطابق طلاق دے اور سنت کے مطاق رجوع کرے، آپ فرماتے ہیں حضرت عوف بن مالک اتجعی ؓ کے صاحبزادے کو کفار گرفتار کر کے لے گئے اور انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا ان کے والد حضور ﷺ کے پاس اکثر آتے اور اپنے بیٹے کی حالت اور حاجت مصیبت اور تکلیف بیان کرتے رہتے آپ انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے چھٹکارے کی سبیل بنا دے گا، تھوڑے دن گذرے ہوں گے کہ ان کے بیٹے دشمنوں میں سے نکل بھاگے راستہ میں دشمنوں کی بکریوں کا ریوڑ مل گیا جسے اپنے ساتھ ہنکا لائے اور بکریاں لئے ہوئے اپنے والد کی خدمت میں جا پہنچے پس یہ آیت اتری کہ متقی بندوں کو اللہ نجات دے دیتا ہے اور اس کا گمان بھی نہ ہو وہاں سے اسے روزی پہنچاتا ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم ہوجاتا ہے تقدیر کو لوٹانے والی چیز صرف دعا ہے عمر میں زیادتی کرنے والی چیز صرف نیکی اور خوش سلوکی ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ حضرت مالک بن اشجعی ؓ کے لڑکے حضرت عوف ؓ جب کافروں کی قید میں تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا ان سے کہلوا دو کہ بکثرت ( ترجمہ ) پڑھتا رہے، ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے ان کی قید کھل گئی اور یہ وہاں سے نکل بھاگے اور ان لوگوں کی ایک اونٹنی ہاتھ لگ گئی جس پر سوار ہو لئے راستے میں ان کے اونٹوں کے ریوڑ ملے انہیں بھی اپنے ساتھ ہنکا لائے وہ لوگ پیچھے دوڑے لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ لگے سیدھے اپنے گھر آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی باپ نے آواز سن کر فرمایا اللہ کی قسم یہ تو عوف ہے ماں نے کہا ہائے وہ کہاں وہ تو قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہا ہوگا اب دونوں ماں باپ اور خادم دروازے کی طرف دوڑے دروازہ کھولا تو ان کے لڑکے حضرت عوف ؓ ہیں اور تمام انگنائی اونٹوں سے بھری پڑی ہے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسے ہیں انہوں نے واقعہ بیان فرمایا کہا اچھا ٹھہرو میں حضور ﷺ سے ان کی بابت مسئلہ دریافت کر آؤں حضرت ﷺ نے فرمایا وہ سب تمہارا مال ہے جو چاہو کرو اور یہ آیت اتری کہ اللہ سے ڈرنے والوں کی مشکل اللہ آسان کرتا ہے اور بےگمان روزی پہنچاتا ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے جو شخص ہر طرف سے کھچ کر اللہ کا ہوجائے اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفایت کرتا ہے اور بےگمان روزیاں دیتا ہے اور جو اللہ سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہوجائے اللہ بھی اسے اسی کے حوالے کردیتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ حضور ﷺ کے ساتھ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے فرمایا بچے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں سنو تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کے احکام کی حفاظت کرو تو اللہ کو اپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پاؤں گے جب کچھ مانگنا ہو اللہ ہی سے مانگو جب مدد طلب کرنی ہو اسی سے مدد چاہو تمام امت مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے اور اللہ کو منظور نہ ہو تو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی اور اسی طرح سارے کے سارے جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی نہیں پہنچا سکتے اگر تقدیر میں نہ لکھا ہو قلمیں اٹھ چکیں اور صحیفے خشک ہوگئے، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی ؒ اسے حسن صحیح کہتے ہیں مسند احمد کی اور حدیث میں ہے جسے کوئی حاجت ہو اور وہ لوگوں کی طرف لے جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ سختی میں پڑجائے اور کام مشکل ہوجائے اور جو اپنی حاجت اللہ کی طرف لے جائے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مراد پوری کرتا ہے یا تو جلدی اسی دنیا میں ہی یا دیر کے ساتھ موت کے بعد۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قضا اور احکام جس طرح اور جیسے چاہے اپنی مخلوق میں پورے کرنے والا اور اچھی طرح جاری کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا اس نے اندازہ مقرر کیا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 3{ وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ } ” اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ “ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا ہے۔ اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی : { اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } الانعام کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی ؟ چناچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہل ِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو ! تمہارا رازق تو میں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے میں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔ تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو ‘ میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔{ وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ } ” اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔ “ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎کار ساز ما بہ فکر ِکارِ ما فکر ِما در کار ما آزار ما !کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے ‘ اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے ‘ اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ! ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے ‘ نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے ‘ تو کیوں نہ ہم اپنے کام اسے سونپ کر خود کو اس کے کام اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دیں۔ اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ 1 کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔ تو اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر خود کو براہ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا ؟ ہرگز نہیں ! ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا ‘ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے۔ چناچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکل ّ بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا۔ یاد رکھیں ! توکل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔ جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا ‘ اسی قدرمضبوط اس کا توکل ہوگا۔ آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔ تو آیئے ! ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکل کریں۔ اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا دردسر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللّٰہ کی حکمت عملی اپنائیں۔ اپنے معاملات اس کے سپرد کردیں اور اس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں !۔۔۔۔ - -{ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ۔ } المومن { اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ } ” اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو غالب کرنا ہی ہے ‘ لیکن اس عظیم الشان کام کے لیے جدوجہد کی سعادت وہ اپنے بندوں کے نام کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کے لیے ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس منافع بخش ” کاروبار “ میں شریک ہونا چاہتا ہے یا اپنی محرومی پر قناعت کر کے بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ جیسے ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھی j اس جدوجہد میں شریک ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخروہو گئے ‘ جبکہ ابوجہل ‘ ابولہب اور ان کے ہم نوائوں نے اس سے بےاعتنائی دکھائی اور ابدی محرومیاں اپنے نام کرالیں۔ آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام قیامت سے پہلے پہلے اس کرئہ ارضی پر دین اسلام کو غالب تو ہونا ہے اور یقینا ہم جیسے انسانوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ہونا ہے ‘ تو کیا ہم اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہیں یا محرومین کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا تن من دھن غرض سب کچھ اس جدوجہد میں کھپ جائے اور ہماری ہڈیاں چورا بن کر بھی اسلام کی تعمیر نو میں کام آجائیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہوگی۔ { قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا۔ } ” اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ “ یہ بہت خوبصورت اور سبق آموز جملہ ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہد کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے ‘ کہ اے راہ حق کے مسافرو ! تمہاری محنت اور جدوجہد کس کس گھاٹی سے ہوتی ہوئی کب ‘ کہاں پہنچے گی اور اللہ کی مدد کب تمہارے شامل حال ہوگی ‘ اللہ کے ہاں یہ سب کچھ طے ہے۔ یقینا اس راستے میں کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد پر ہے ‘ لیکن اللہ کی مدد تو تبھی آئے گی جب تم خود کو اس کا اہل ثابت کرو گے۔ اس کے لیے تمہیں منہج نبوی ﷺ کو اپناتے ہوئے ہر اس راستے سے گزرنا ہوگا جس راستے سے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گزرے اور ہر وہ سختی برداشت کرنا ہوگی جو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برداشت کی۔ جب ان تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر آگے بڑھو گے تو خود کو ایک ایسے میدان میں کھڑا پائو گے جس کے نشیب و فراز سرزمین ِبدر کے نشیب و فراز سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس میدان کی مخالف سمت سے اسلحہ کی جھنکار اور لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہوگی ‘ جبکہ اس کی فضا ملکوتی تقدس کے احساس سے معمور ہوگی۔ جب تم یہ سب کچھ دیکھو اور محسوس کرو تو جان لینا کہ تمہاری جدوجہد کا فیصلہ کن موڑ آپہنچا ہے۔ بس اس موقع پر تم سجدے میں گرجانا اور رو رو کر دعا کرنا کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے داعی کی دعوت پر لبیک کہا ! ہم تیرے پیغام کو لے کر قریہ قریہ گھومے ! گلی گلی پھرے ! ایک عرصہ تک ہم نے اپنی صبحیں اور اپنی شامیں اسی فکر میں بتادیں ! ہم نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے اور ہر مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش کی ! اے اللہ ! ہم نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ‘ اور تیری ہی توفیق اور مشیت سے کیا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم کوشش ‘ محنت ‘ ایثار اور قربانی کا حق ادا نہیں کرسکے ! لیکن ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ پروردگار ! ہم نے اپنی سالہاسال کی محنت کو آج اس میدان میں تیرے حضور پیش کردیا ہے ! اے گناہوں کو معاف کرنے والے ! تو ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہماری اس حقیر سی کمائی کو قبول فرما لے …! اگر یہ دعائیں مذکورہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد مانگی جائیں گی تو ضرور قبول ہوں گی ‘ تب اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ فرشتے بھی اتریں گے اور دنیوی کامیابی بھی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کاروبار بھی چلتا رہے ‘ معیارِ زندگی بھی برقرار رہے ‘ معمولاتِ زندگی میں بھی خلل نہ پڑے ‘ مال و جان بھی محفوظ رہے ‘ بچوں کے کیریئرز بھی بن جائیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اقامت دین کا ” کارنامہ “ بھی انجام پا جائے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت کے اراکین کی فہرست میں نام لکھوا کر سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی ‘ دین غالب ہوجائے گا اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہی نہیں کہ کس نے کیا قربانی دی ہے ‘ کس نے کتنا وقت لگایا ہے ‘ کس نے کس مرحلے پر کس مہم میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ نہیں ! یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ! اللہ کے ہاں ہرچیز اور ہر انسان کے ہر عمل کا حساب موجود ہے ! قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا اس نے ہرچیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے !

ويرزقه من حيث لا يحتسب ومن يتوكل على الله فهو حسبه إن الله بالغ أمره قد جعل الله لكل شيء قدرا

سورة: الطلاق - آية: ( 3 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 558 )

Surah Talaq Ayat 3 meaning in urdu

اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کردیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی
  2. کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے جو خدا
  3. وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں (پہلوں کا) جانشین بنایا۔ تو جس
  4. خضر نے کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی۔ (مگر) جن باتوں پر تم
  5. وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر
  6. اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں
  7. وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو)
  8. مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں۔ اور نیکیاں جو
  9. اور کہتے ہیں کہ ان پر ان کے پروردگارکے پاس کوئی نشانی کیوں نازل نہیں
  10. جو صبر کرتے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Talaq with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Talaq mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Talaq Complete with high quality
surah Talaq Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Talaq Bandar Balila
Bandar Balila
surah Talaq Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Talaq Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Talaq Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Talaq Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Talaq Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Talaq Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Talaq Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Talaq Fares Abbad
Fares Abbad
surah Talaq Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Talaq Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Talaq Al Hosary
Al Hosary
surah Talaq Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Talaq Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers