Surah Taubah Ayat 30 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
[ التوبة: 30]
اور یہود کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہیں کی ریس کرنے میں لگے ہیں۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
Surah Taubah UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آگئے ان کے علماء کو قتل کردیا ان کے رئیسوں کو قید کرلیا۔ عزیر ؑ کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہوجانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہوگا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہوگا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں ؟ آپ کو سمجھ میں آگیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھالو چناچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر ؑ کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر ؑ کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے ؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ ﷺ کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہوگئی پھر حضور ﷺ نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کردیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چناچہ یہ مدینہ شریف آگئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور ﷺ کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا ) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتادیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بیخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے ؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے ؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے ؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کردی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 30 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ج یُضَاہِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط ان کی ان باتوں یا من گھڑت عقیدوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ یہ لوگ اپنے سے پہلے والے مشرکین کے عقائد کی نقل کر رہے ہیں۔ متھرا ازم ایک قدیم مذہب تھا جس کا مرکز مصر تھا۔ اس مذہب میں پہلے سے یہ تثلیث موجود تھی : " God the Father , Horus the Son of God and Isis the Mother Goddess." یعنی خدا ‘ خدا کا بیٹا اور اس کی ماں آئسس دیوی۔ یہ پہلی تثلیث تھی جو مصر میں بنی۔ پھر جب سینٹ پال نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی اور اس کا دائرہ غیر اسرائیلیوں gentiles تک وسیع کردیا تو اہل مصر کی نقالی میں تثلیث جیسے نظریات عیسائیت میں شامل کرلیے گئے تاکہ ان نئے لوگوں کو عیسائیت اختیار کرنے میں آسانی ہو۔ چناچہ عیسائیت میں جو پہلی تثلیث شامل کی گئی وہ یہی تھی کہ خدا ‘ خدا کا بیٹا یسوع اور مریم مقدس۔ تو انہوں نے قدیم مذاہب کی نقالی میں یہ تثلیث ایجاد کی تھی۔
وقالت اليهود عزير ابن الله وقالت النصارى المسيح ابن الله ذلك قولهم بأفواههم يضاهئون قول الذين كفروا من قبل قاتلهم الله أنى يؤفكون
سورة: التوبة - آية: ( 30 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 191 )Surah Taubah Ayat 30 meaning in urdu
یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھار ہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر
- اور (ایسی شیخیوں) سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔
- (سو) جو تم کفر کرتے رہے ہو اس کے بدلے آج اس میں داخل ہوجاؤ
- دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ
- اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور
- تو خدا نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس
- (اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور
- ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
- اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب ودانا کی طرف سے ہے
- کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers