Surah muhammad Ayat 16 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ﴾
[ محمد: 16]
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو تمہاری طرف کان لگائے یہاں تک کہ (سب کچھ سنتے ہیں لیکن) جب تمہارے پاس سے نکل کر چلے جاتے ہیں تو جن لوگوں کو علم (دین) دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ (بھلا) انہوں نے ابھی کیا کہا تھا؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اور وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چل رہے ہیں
Surah muhammad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ منافقین کا ذکر ہے، ان کی نیت چونکہ صحیح نہیں ہوتی تھی، اس لئے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ مجلس سے باہر آکر صحابہ ( رضي الله عنهم ) سے پوچھتے کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم )نے کیا فرمایا؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بےوقوف، کند ذہن اور جاہل منافقوں کی کند ذہنی اور بےعلمی ناسمجھی اور بےوقوفی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجود مجلس میں شریک ہونے کے کلام الرسول سن لینے کے پاس بیٹھے ہونے کے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ مجلس کے خاتمے کے بعد اہل علم صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت کیا کیا کہا ؟ یہ ہیں جن کے دلوں پر مہر اللہ لگ چکی ہے اور اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے پڑگئے ہیں فہم صریح اور قصد صحیح ہے ہی نہیں، پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں انہیں خود اللہ بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطا فرماتا ہے اور انکی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے پھر فرماتا ہے کہ یہ تو اسی انتظار میں ہیں کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے۔ تو یہ معلوم کرلیں کہ اس کے قریب کے نشانات تو ظاہر ہوچکے ہیں، جیسے اور موقعہ پر ارشاد ہوا ہے آیت ( ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى 56 ) 53۔ النجم:56) یہ ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں سے قریب آنے والی قریب آچکی ہے۔ اور بھی ارشاد ہوتا ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) 54۔ القمر:1) ، قیامت قریب ہوگئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمایا آیت ( اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ ۚ ) 21۔ الأنبیاء :1) لوگوں کا حساب قریب آگیا پھر بھی وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں پس حضور ﷺ کا نبی ہو کر دنیا میں آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اس لئے کہ رسولوں کے ختم کرنے والے ہیں آپ ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو کامل کیا اور اپنی حجت اپنی مخلوق پر پوری کی اور حضور ﷺ نے قیامت کی شرطیں اور اسکی علامتیں اس طرح بیان فرما دیں کہ آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی نے اس قدر وضاحت نہیں کی تھی جیسے کہ اپنی جگہ وہ سب بیان ہوئی ہیں۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضور ﷺ کا آنا قیامت کی شرطوں میں سے ہے چناچہ خود آپ کے نام حدیث میں یہ آئے ہیں۔ نبی التوبہ، نبی الملحمہ، حاشر جس کے قدموں پر لوگ جمع کئے جائیں عاقب جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بیچ کی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو اٹھا کر فرمایا میں اور قیامت مثل ان دونوں کے بھیجے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو قیامت قائم ہوجانے کے بعد نصیحت و عبرت کیا سود مند ہوگی ؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23ۭ ) 89۔ الفجر:23) اس دن انسان نصیحت حاصل کرلے گا لیکن اس کے لئے نصیحت کہاں ؟ یعنی قیامت کے دن کی عبرت بےسود ہے۔ اور آیت میں ہے آیت ( وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52ښ ) 34۔ سبأ :52) یعنی اس وقت کہیں گے کہ ہم قرآن پر ایمان لائے حالانکہ اب انہیں ایسے دور از امکان پر دسترس کہاں ہوسکتی ہے ؟ یعنی ان کا ایمان اس وقت بےسود ہے پھر فرماتا ہے اے نبی جان لو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے کوئی اور نہیں، یہ دراصل خبر دینا ہے اپنی وحدانیت کا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ اس کے علم کا حکم دیتا ہو۔ اسی لئے اس پر عطف ڈال کر فرمایا اپنے گناہوں کا اور مومن مرد و عورت کے گناہوں کا استغفار کرو صحیح حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں ( اللھم اغفرلی خطیتی وجھلی واسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی اللھم اغفرلی وجدی وخطی وعمدی وکل ذالک عندی ) یعنی اے اللہ میری خطاؤں کو اور میری جہالت کو اور میرے کاموں میں مجھ سے جو زیادتی ہوگئی ہو اس کو اور ہر چیز کو جسے تو مجھ سے بہت زیادہ جاننے والا ہے بخش۔ اے اللہ میرے بےقصد گناہوں کو اور میرے عزم سے کئے ہوئے گناہوں کو اور میری خطاؤں اور میرے قصد کو بخش اور یہ تمام میرے پاس ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ اپنی نماز کے آخر میں کہتے ( اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی انت الھی لا الہ الا انت ) یعنی اے اللہ میں نے جو کچھ گناہ پہلے کئے ہیں اور جو کچھ پیچھے کئے ہیں اور جو چھپا کر کئے ہیں اور جو ظاہر کئے ہیں اور جو زیادتی کی ہے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے بخش دے تو ہی میرا اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو اپنے رب کی طرف توبہ کرو پس تحقیق میں اپنے رب کی طرف استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں ہر ایک دن ستر بار سے بھی زیادہ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن سرخس ؓ فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے کھانے میں سے کھانا کھایا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ آپ کو بخشے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور تجھے بھی تو میں نے کہا کیا میں آپ کے لئے استغفار کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور اپنے لئے بھی پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور باایمان عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کر۔ پھر میں نے آپ ﷺ کے داہنے کھوے یا بائیں ہتھیلی کو دیکھا وہاں کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی جس پر گویا تل تھے۔ اسے مسلم، ترمذی، نسائی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے ابو یعلی میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا تم لا الہ الا للہ کا اور استغفر اللہ کا کہنا لازم پکڑو اور انہیں بکثرت کہا کرو اس لئے کہ ابلیس کہتا میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے ان دونوں کلموں سے ہلاک کیا۔ میں نے جب یہ دیکھا تو انہیں خواہشوں کے پیچھے لگا دیا پس وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔ ایک اور اثر میں ہے کہ ابلیس نے کہا اللہ مجھے تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم جب تک کسی شخص کی روح اس کے جسم میں ہے میں اسے بہکاتا رہوں گا پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی قسم ہے اپنی بزرگی اور بڑائی کی کہ میں بھی انہیں بخشتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں۔ استغفار کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا دن میں ہیر پھیر اور تصرف کرنا اور تمہارا رات کو جگہ پکڑنا اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 60ۧ ) 6۔ الأنعام:60) یعنی اللہ وہ ہے جو تمہیں رات کو فوت کردیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) 11۔ ھود :6) ، یعنی زمین پر جتنے بھی چلنے والے ہیں ان سب کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور وہ ان کے رہنے کی جگہ اور دفن ہونے کا مقام جانتا ہے یہ سب باتیں واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ ابن جریج کا یہی قول ہے اور امام جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مراد آخرت کا ٹھکانا ہے۔ سدی فرماتے ہیں تمہارا چلنا پھرنا دنیا میں اور تمہاری قبروں کی جگہ اسے معلوم ہے لیکن اول قول ہی اولیٰ اور زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اب یہاں سے اس سورت کا اصل مضمون شروع ہو رہا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس سورت کا مرکزی مضمون ” قتال فی سبیل اللہ “ ہے اور اسی نسبت سے اس کا دوسرا نام ” سورة القتال “ ہے۔ اس مضمون کے تحت آئندہ آیات میں ان لوگوں کی باطنی کیفیات کی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی جن کے دلوں میں روگ تھا اور قتال کے ذکر سے ان پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی تھی۔آیت 16 { وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ } ” اور اے نبی ﷺ ! ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ “ { حَتّی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا } ” یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر باہر جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے کہ ابھی انہوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا کہا تھا ؟ “ یعنی آج حضور ﷺ نے یہ جو ایک نئی بات کہہ دی ہے کہ ہمیں جنگ کے لیے تیار ہونا ہے اور قریش کے تجارتی قافلوں کا تعاقب کرنا ہے ‘ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اُوْتُوا الْعِلْمَ سے یہاں اہل ِایمان بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اہل کتاب یہودی بھی۔ یعنی منافقین یہ بات ان مسلمانوں سے پوچھتے جنہیں وہ زیادہ سمجھدار سمجھتے تھے یا یہ کہ یہی بات وہ لوگ یہودیوں سے جا کر پوچھتے جنہیں اس سے پہلے کتاب کا علم دیا گیا تھا۔ { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ “ جہاد و قتال کے تصور سے ان کے دلوں کی گھبراہٹ اور ایثار و قربانی کی باتوں کو قبول کرنے سے ان کی ہچکچاہٹ درحقیقت اس منافقت کی علامت ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوچکی ہے۔
ومنهم من يستمع إليك حتى إذا خرجوا من عندك قالوا للذين أوتوا العلم ماذا قال آنفا أولئك الذين طبع الله على قلوبهم واتبعوا أهواءهم
سورة: محمد - آية: ( 16 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 508 )Surah muhammad Ayat 16 meaning in urdu
اِن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو اُن لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی اِنہوں نے کیا کہا تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس
- یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں۔ اور ان کے
- اور پہلے یوسف بھی تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے تو جو وہ لائے
- دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے
- تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے
- اور ان ہی کے پیرووں میں ابراہیم تھے
- جو پروا نہیں کرتا
- اور نہ اندھوں کو اُن کی گمراہی سے (نکال کر) راہ راست پر لاسکتے ہو۔
- اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا اور اسی نے تمہاری صورتیں
- اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah muhammad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah muhammad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter muhammad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers