Surah maryam Ayat 33 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا﴾
[ مريم: 33]
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے
Surah maryam UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تقدس مریم اور عوام حضرت مریم ؑ نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کرلیا اور اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تو نے تو بڑا ہی برا کام کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ لیکن میں نے رات کو عجیب بات دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گرگئیں۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آرہا تھا۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ بچے کو لئے ہوئے آتی دکھائی دی گئیں انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھ گئیں۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت ہارون کی نسل سے تھیں۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت و ریاضت حضرت مریم صدیقہ کی تھی۔ اس لئے انہیں ہارون کی بہن کہا گیا۔ کوئی کہتا ہے ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا اس لئے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون و موسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے جب حضرت موسیٰ ؑ کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے۔ یہ قول تو بالکل غلط ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے آپ کے بعد صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ ہی نبی ہوئے ہیں۔ چناچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لئے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان اور کوئی نبی نہیں گزرا۔ پس اگر ماننا پڑے گا کہ آپ حضرت سلیمان ؑ اور جضرت داؤد ؑ سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ حضرت داؤد ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ہوئے ہیں ملاحظہ ہو آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى02406 ) 2۔ البقرة :246) ، ان آیتوں میں حضرت داؤد کا واقعہ اور آپ کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے اور لفظ موجود ہیں کہ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہیں جو غلطی لگی ہے اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون کی بہت تھیں، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں۔ اس عبارت سے قرظی ؒ نے سمجھ لیا کہ یہی حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ ؑ کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں تھیں اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ہوسکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے نجران بھیجا وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ ؑ تو عیسیٰ ؑ سے بہت پہلے گزرے ہیں مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا جب میں مدینے واپس آیا اور حضور ﷺ سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم شریف میں یہ بھی حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت کعب نے کہا تھا کہ یہ ہارون حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی ہارون نہیں اس پر ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے انکار کیا تو آپ نے کہا کہ اگر آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ یہ سن کر ام المومنین ؓ خاموش ہوگئیں۔ اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں حضرت مریم ؑ کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتا چلی آرہی تھی۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور عام شوق ہوگیا تھا یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن حضرت ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہوگئی تم تو نیک کو کھ کی بچی ہو ماں باپ دونوں صالح سارا گھرانہ پاک پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے پوچھ لو۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ اتنے میں بن بلائے آپ بول اٹھے کہ لوگوں میں اللہ کا ایک غلام ہوں۔ سب سے پہلا کلام حضرت عیسیٰ ؑ کا یہی ہے۔ اللہ کی تنزیہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کردیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی پھر اپنی نبوت کا اظہار کر کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے۔ اس میں اپنی والدہ کی برات بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا۔ عکرمہ تو فرماتے ہیں مجھے اپنے کسی عمل کے اعلان کی اجازت ہے فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لئے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے۔ فرماتے ہیں مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز وزکوۃ کا پابند رہوں۔ یہی حکم ہمارے نبی ( علیہ الصلوۃ والسلام ) کو ملا۔ ارشاد ہے ( واعبد ربک حتی یاتیک القین ) مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی فرمایا کہ " اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہوجاتی ہے۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے۔ عموما قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23 ) 17۔ الإسراء :23) اور آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14 ) 31۔ لقمان:14) میں۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یہ والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں۔ کہتے ہیں جباروشقی وہ ہے جو غصے میں آکر خونریزی کر دے۔ فرماتے ہیں ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا۔ آپ نے جواب دیا مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی پھر تابعداری کی۔ اور سرکش اور بدبخت نہ بنا۔ پھر فرماتے ہیں میری پیدائش کے دن، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پر سلامتی ہے اس سے بھی آپ کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الہٰی ہونا ثابت ہورہا ہے کہ آپ مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں آپ پر آسان اور سہل ہوں گے نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 28 یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّاحضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ علیہ السلام کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔
Surah maryam Ayat 33 meaning in urdu
سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے
- ہم گنہگاروں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں
- پھر جن لوگوں نے نادانی سے برا کام کیا۔ پھر اس کے بعد توبہ کی
- گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں
- اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
- اور جب اُن میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے
- اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
- کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا؟ وہ تو کوئی
- کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے رفیق محمد (ﷺ) کو (کسی طرح
- اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
Quran surahs in English :
Download surah maryam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah maryam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter maryam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers