Surah Saad Ayat 33 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ﴾
[ ص: 33]
(بولے کہ) ان کو میرے پاس واپس لے آؤ۔ پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے
Surah Saad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس ترجمے کی رو سے أَحْبَبْتُ، بمعنی آثَرْتُ ( ترجیح دینا ) اور عَنْ بمعنی عَلَى ہے۔ اور تَوَارَتْ کا مرجع شَمْسٌ ہے جو آیت میں پہلے مذکور نہیں ہے، لیکن قرینہ اس پر دال ہے۔ اس تفسیر کی رو سے اگلی آیت میں۔ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ کا ترجمہ بھی ذبح کرنا ہوگا یعنی مَسْحًا بِالسَّيْف ِ کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معاینہ میں حضرت سلیمان ( عليه السلام ) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت وہ کرتے تھے۔ جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا وارفتہ اور گم ہو گیا کہ سورج پردۂ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفے سے غافل رہا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نےسارےگھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔ امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ دیگر بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیر کی ہے۔ اس کی رو سے عَنْ، أَجْلٌ کے معنی میں ہے أَيْ : لأَجْلِ ذِكْرِ رَبِّي، یعنی رب کی یاد کی وجہ سے میں ان گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ یعنی اس کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں جہاد ہوتا ہے۔ پھر ان گھوڑوں کو دوڑایا حتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انہیں دوبارہ طلب کیا اور پیار ومحبت سے ان کی پندلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا خَيْرٌ، قرآن میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ لفظ گھوڑو ں کے لئے آیا ہے۔ تَوَارَتْ کا مرجع گھوڑے ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے اس دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے اور یہی تفسیر متعدد وجوہ سےصحیح لگتی ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حضرت سلیمان حضرت داؤد کے وارث۔ اللہ تعالیٰ نے جوا یک بڑی نعمت حضرت داؤد ؑ کو عطا فرمائی تھی اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ ان کی نبوت کا وارث ان کے لڑکے حضرت سلیمان ؑ کو بنادیا۔ اسی لئے صرف حضرت سلیمان کا ذکر کیا ورنہ ان کے اور بچے بھی تھے۔ ایک سو عورتیں آپ کی لونڈیوں کے علاوہ تھیں۔ چناچہ اور آیت میں ہے ( وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ 16 ) 27۔ النمل:16) یعنی حضرت داود کے وارث حضرت سلیمان ہوئے یعنی نبوت آپ کے بعد انہیں ملی۔ یہ بھی بڑے اچھے بندے تھے یعنی خوب عبادت گذار تھے اور اللہ کی طرف جھکنے والے تھے۔ مکحول کہتے ہیں کہ جناب داؤد نبی نے ایک مرتبہ آپ سے چند سوالات کئے اور ان کے معقول جوابات پا کر فرمایا کہ آپ نبی اللہ ہیں۔ پوچھا کہ سب سے اچھی چیز کیا ہے ؟ جواب دیا کہ اللہ کی طرف سکینت اور ایمان پوچھا کہ سب سے زیادہ میٹھی چیز کیا ہے ؟ جواب ملا اللہ کی رحمت پوچھا سب سے زیادہ ٹھنڈک والی چیز کیا ہے ؟ جواب دیا اللہ کا لوگوں سے درگذر کرنا اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردینا ( ابن ابی حاتم ) حضرت سلیمان ؑ کے سامنے ان کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے گھوڑے پیش کئے گئے۔ یہ بہت تیز رفتار تھے جو تین ٹانگوں پر کھڑے رہتے تھے اور ایک پیر یونہی سا زمین پر ٹکتا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پر دار گھوڑے تھے تعداد میں بیس تھے۔ ابراہیم تمیمی نے گھوڑوں کی تعداد بیس ہزار بتلائی ہے۔ واللہ اعلم ابو داؤد میں ہے حضور ﷺ تبوک یا خیبر کے سفر سے واپس آئے تھے گھر میں تشریف فرما تھے جب تیز ہوا کے جھونکے سے گھر کے کونے کا پردہ ہٹ گیا وہاں حضرت عائشہ کی کھیلنے کی گڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ حضور ﷺ کی نظر بھی پڑگئی۔ دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں آپ نے دیکھا کہ بیچ میں ایک گھوڑا سا بنا ہوا ہے جس کے دو پر بھی کپڑے کے لگے ہوئے ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گھوڑا ہے فرمایا اور یہ اس کے اوپر دونوں طرف کپڑے کے کیا بنے ہوئے ہیں ؟ کہا یہ دونوں اس کے پر ہیں۔ فرمایا اچھا گھوڑا اور اس کے پر بھی ؟ صدیقہ نے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے پر دار گھوڑے تھے، یہ سن کر حضور ﷺ ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے آخری دانت دکھائی دینے لگے۔ حضرت سلیمان ؑ ان کے دیکھنے بھالنے میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ عصر کی نماز کا خیال ہی نہ رہا بالکل بھول گئے۔ جیسے کہحضور ﷺ جنگ خندق والے دن لڑائی کی مشغولیت کی وجہ سے عصر کی نماز نہ پڑھ سکے تھے اور مغرب کے بعد ادا کی۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سورج ڈوبنے کے بد حضرت عمر ؓ کفار قریش کو برا کہتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور ﷺ میں تو عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا۔ آپ نے فرمایا میں بھی اب تک ادا نہیں کرسکا۔ چناچہ ہم بطحان میں گئے وہاں وضو کیا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور پھر مغرب پڑھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دین سلیمان میں جنگی صالح کی وجہ سے تاخیر نماز جائز ہو اور یہ جنگی گھوڑے تھے جنہیں اسی مقصد سے رکھا تھا۔ چناچہ بعض علماء نے یہ کہا بھی ہے کہ صلوۃ خوف کے جاری ہونے سے پہلے یہی حال تھا۔ بعض کہتے ہیں جب تلواریں تنی ہوئی ہوں لشکر بھڑ گئے ہوں اور نماز کے لئے رکوع و سجود کا امکان ہی نہ ہو تب یہ حکم ہے جیسے صحابہ ؓ نے تیستر کی فتح کے بعد موقعہ پر کیا تھا لیکن ہمارا پہلا قول ہی ٹھیک ہے اس لئے کہ اس کے بعد ہی حضرت سلیمان کا ان گھوڑوں کو دوبارہ طلب کرنا وغیرہ بیان ہوا ہے۔ انہیں واپس منگوا کر ان کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا میرے رب کی عبادت سے مجھے اس چیز نے غافل کردیا میں ایسی چیز ہی نہیں رکھنے کا۔ چناچہ ان کی کوچیں کاٹ دی گئیں اور ان کی گردنیں ماری گئیں۔ لیکن حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آپ نے گھوڑوں کے پیشانی کے بالوں وغیرہ پر ہاتھ پھیرا۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو اختیار کرتے ہیں کہ بلا وجہ جانوروں کو ایذاء پہچانی ممنوع ہے ان جانوروں کا کوئی قصور نہ تھا جو انہیں کٹوا دیتے لیکن میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات ان کی شرع میں جائز ہو خصوصاً ایسے وقت جبکہ وہ یاد اللہ میں حارج ہوئے اور وقت نماز نکل گیا تو دراصل یہ غصہ بھی اللہ کے لئے تھا۔ چناچہ اسی وجہ سے ان گھوڑوں سے بھی تیز اور ہلکی چیز اللہ نے اپنے نبی کو عطا فرمائی یعنی ہوا ان کے تابع کردی۔ حضرت ابو قتادہ ؓ اور حضرت ابو دھما اکثر حج کیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں ہماری ایک بدوی سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہت کچھ دینی تعلیم دی اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر تو جس چیز کو چھوڑے گا اللہ تجھے اس سے بہتر عطا فرمائیگا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 33 { رُدُّوْہَا عَلَیَّط فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ } ” تو اس نے کہا : واپس لائو ان کو میرے پاس ! تو اب وہ لگا تلوار مارنے ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر۔ “ یعنی آپ علیہ السلام کو نماز قضا ہونے کا اس قدر افسوس تھا کہ آپ علیہ السلام نے گھوڑوں کو واپس منگوایا اور شدید تاثر اور مغلوبیت کی کیفیت میں ان کی گردنوں اور ٹانگوں پر تلوار سے وار کرنا شروع کردیے۔ یہاں پر بعض مفسرین نے مَسْحًاسے ” ہاتھ پھیرنا “ مراد لے کر آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دراصل گھوڑوں کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں واپس منگوایا تھا اور جب گھوڑے واپس لائے گئے تو آپ علیہ السلام ان کی گردنوں اور ٹانگوں کو پیار سے سہلاتے رہے ‘ یعنی ان سے اظہارِ محبت کے طور پر ان پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ لیکن آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق کے مطابق پہلا مفہوم ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ یہاں پر اس نکتہ کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مذکورہ عمل دراصل غلبہ حال کے تحت تھا۔ جیسے حضرت عمر رض غزوئہ اُحد میں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی خبر سن کر تلوار پھینک کر بیٹھ گئے تھے کہ اب کس کے لیے لڑنا ہے ؟ حالانکہ اُن رض کا جہاد و قتال تو اللہ کے لیے تھا ‘ نہ کہ حضرت محمد ﷺ کے لیے۔ اسی طرح حضور ﷺ کے انتقال کے موقع پر بھی حضرت عمر رض نے غلبہ حال کے سبب تلوار کھینچ لی کہ جس کسی نے کہا کہ حضور ﷺ انتقال کر گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اس انتہائی نازک صورت حال کو حضرت ابوبکر صدیق رض نے سنبھالا۔ آپ رض نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ ” جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو وہ سن لے کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوچکا ہے اور جو کوئی اللہ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت واقع نہیں ہوگی “۔ اس کے بعد آپ رض نے سورة آلِ عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْط } آیت 144 1۔ بہرحال غلبہ حال کی کیفیت میں کبھی کبھی بڑی شخصیات سے بھی غیر معمولی افعال اور غیر متوقع رویے کا صدور ہوجاتا ہے۔ چناچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنی نماز قضا ہونے کے رنج میں غلبہ حال کی غیر معمولی کیفیت کے تحت گھوڑوں پر تلوار سے وار کرنا بعید از فہم نہیں ہے۔
Surah Saad Ayat 33 meaning in urdu
تو (اس نے حکم دیا کہ) انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اور) پہلی دفعہ کے مرنے کے سوا (کہ مرچکے تھے) موت کا مزہ نہیں چکھیں
- اور خدا ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو اُبھارتی ہیں
- (پیغمبر نے) کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں (کہی جاتی) ہے میرا پروردگار
- اے پروردگار مجھے علم ودانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل کر
- پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ
- (خدا نے فرمایا) کہ ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل
- پھر غبار ہو کر اُڑنے لگیں
- (تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو
- ہم نے فرمایا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو یہ
- (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ
Quran surahs in English :
Download surah Saad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers