Surah Nisa Ayat 34 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾
[ النساء: 34]
مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس میں مرد کی حاکمیت وقوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت ودماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت وحیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا ہے، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے،جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ہے ” وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے “۔ ( صحيح البخاري- كتاب المغازي- باب كتاب النبي إلى كسرى وقيصر وكتاب الفتن باب 18 )
( 2 ) نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ ونصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھ دار عورت کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی ہے۔ اگر وہ اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہے، لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مرد عورتوں سے افضل کیوں ؟ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ ( بخاری ) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔ دوسری وجہ فضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے ( وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 2۔ البقرۃ :228) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی ﷺ کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری ؓ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار ؓ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے آپ نے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا۔ شعبہ ؒ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کرسکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کرسکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے بخاری شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے، بات چیت اور کلام بھی ترک کرسکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے، بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہہ بھی تم کرسکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت اشعث ؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم ؓ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہوگئی اور حضرت عمر ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت ﷺ سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا ؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی ( نسائی ) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہوجانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقینا وہ بہت زرو اور زبردست ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 34 اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ یہ ترجمہ میں زور دے کر کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہاں قامَ ‘ ’ عَلٰی ‘ کے صلہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ قَامَ ’ بِ ‘ کے ساتھ آئے گا تو معنی ہوں گے کسی شے کو قائم کرنا“۔ اسی سورة مبارکہ میں آگے چل کر یہ الفاظ آئیں گے : کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ عدل کو قائم کرنے والے بن کر کھڑے ہوجاؤ ! جبکہ قام عَلٰی کا مفہوم ہے کسی کے اوپر مسلط ہونا۔ّیعنی حاکم اور منتظم ہونا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ سے یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ گھر کے ادارے میں حاکم ہونے کی حیثیت مرد کو حاصل ہے ‘ سربراہ خاندان مرد ہے ‘ عورت نہیں ہے۔ عورت کو بہرحال اس کے ساتھ ایک وزیر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ یوں تو ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے۔ گھر کے اندر مرد بھی یہ چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن آخر کار کس کی بات چلے گی ؟ یا تو دونوں باہمی رضامندی سے کسی مسئلے میں متفق ہوجائیں ‘ بیوی اپنے شوہر کو دلیل سے ‘ اپیل سے ‘ جس طرح ہو سکے قائل کرلے تو معاملہ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن اگر معاملہ طے نہیں ہو رہا تو اب کس کی رائے فیصلہ کن ہوگی ؟ مرد کی ! عورت کی رائے جب مسترد ہوگی تو اسے اس سے ایک صدمہ تو پہنچے گا۔ اسی صدمے کا اثر کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت میں نسیان کا مادہ زیادہ رکھ دیا ہے ‘ جو ایک safety valve کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون شہادت میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا نصاب رکھا گیا ہے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری یاد کرا دے“۔ اس پر ہم سورة البقرة آیت 282 میں بھی گفتگو کرچکے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گھر کے ادارے کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ مرد اگر اپنی اس حیثیت کا غلط استعمال کرتا ہے ‘ عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتاتو اللہ کے ہاں بڑی سخت پکڑ ہوگی۔ آپ کو ایک اختیار دیا گیا ہے اور آپ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں ‘ اس کو ظلم کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کو مل جائے گی۔بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوّق حاصل ہے ‘ جن کی بنا پر قوّ امیت کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ‘ ہے۔ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط۔اسلام کے معاشرتی نظام میں کفالتی ذمہ داری تمام تر مرد کے اوپر ہے۔ شادی کے آغاز ہی سے مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ شادی اگرچہ مرد کی بھی ضرورت ہے اور عورت کی بھی ‘ لیکن مرد مہر دیتا ہے ‘ عورت مہر وصول کرتی ہے۔ پھر گھر میں عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے ہے۔ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ مرد کو قوامیت کے منصب پر فائز کرنے کے بعد اب نیک بیویوں کا رویہ بتایاجا رہا ہے۔ یوں سمجھئے کہ قرآن کے نزدیک ایک خاتون خانہ کی جو بہترین روش ہونی چاہیے وہ یہاں تین الفاظ میں بیان کردی گئی ہے : فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ۔حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ rَوہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ ظاہر ہے مرد کا مال تو گھر میں ہی ہوتا ہے ‘ وہ کام پر چلا گیا تو اب وہ بیوی کی حفاظت میں ہے۔ اسی طرح بیوی کی عصمت درحقیقت مرد کی عزتّ ہے۔ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح مرد کے راز ہوتے ہیں ‘ جن کی سب سے زیادہ بڑھ کر رازدان بیوی ہوتی ہے۔ تو یہ حفاظت تین اعتبارات سے ہے ‘ شوہر کے مال کی ‘ شوہر کی عزت و ناموس کی ‘ اور شوہر کے رازوں کی۔بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط۔اصل حفاظت و نگرانی تو اللہ کی ہے ‘ لیکن انسان کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے رازق تو اللہ ہے ‘ لیکن انسان کو کام کر کے رزق کمانا پڑتا ہے۔ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ rّاگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ سرکشی ‘ سرتابی ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش پر چل پڑی ہے ‘ شوہر کی بات نہیں مان رہی بلکہ ہر صورت میں اپنی بات منوانے پر مصر ہے اور اس طرح گھر کی فضا خراب کی ہوئی ہے تو یہ نشوز ہے۔ اگر عورت اپنی اس حیثیت کو ذہناً تسلیم نہ کرے کہ وہ شوہر کے تابع ہے تو ظاہر بات ہے کہ مزاحمت friction ہوگی اور اس کے نتیجے میں گھر کے اندر ایک فساد پیدا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں مرد کو قوّام ہونے کی حیثیت سے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں ‘ جن کے تین مراحل ہیں : ُ فَعِظُوْہُنَّ پہلا مرحلہ سمجھانے بجھانے کا ہے ‘ جس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل ہے۔وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْْمَضَاجِعِ اگر نصیحت و ملامت سے کام نہ چلے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان سے اپنے بستر علیحدہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق زن و شو کچھ عرصہ کے لیے منقطع کرلو۔ وَاضْرِبُوْہُنَّ ج۔اگر اب بھی وہ اپنی روش نہ بدلیں تو مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ اس ضمن میں آنحضور ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ چہرے پر نہ مارا جائے اور کوئی ایسی مار نہ ہو جس کا مستقل نشان جسم پر پڑے۔ مذکورہ بالا تادیبی ہدایات اللہ کے کلام کے اندر بیان فرمائی گئی ہیں اور انہیں بیان کرنے میں ہمارے لیے کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کو درست رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پیش آئے تو انہیں اختیار کرنا ہوگا۔ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ط۔اگر عورت سرکشی و سرتابی کی روش چھوڑ کر اطاعت کی راہ پر آجائے تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں۔ اس سے انتقام لینے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔
الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم فالصالحات قانتات حافظات للغيب بما حفظ الله واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا إن الله كان عليا كبيرا
سورة: النساء - آية: ( 34 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 84 )Surah Nisa Ayat 34 meaning in urdu
مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر تم وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو (اے دیکھنے والے) خدا کی رحمت کی نشانیوں کی طرف دیکھ کہ وہ کس
- جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور
- انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا
- ہر چیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے تباہ کئے دیتی ہے تو وہ ایسے
- اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا
- اور اس سے ظالم کون جس کو اس کے پروردگار کے کلام سے سمجھایا گیا
- یہی سچے مومن ہیں اور ان کے لیے پروردگار کے ہاں (بڑے بڑے درجے) اور
- جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو
- پھر اگر یہ لوگ تم کو سچا نہ سمجھیں تو تم سے پہلے بہت سے
- مگر گرم پانی اور بہتی پیپ
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers