Surah Anfal Ayat 34 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾
[ الأنفال: 34]
اور (اب) ان کے لیے کون سی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جب کہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی تو صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سےجس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے۔ دراں حالیکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، تَحَكُّمًا ( زبردستی ) بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب الیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتنبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چناچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کردیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چناچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ، یعنی یہ مکہ والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جا ہے اپنی رحمت میں لے لے۔ اگر مکہ میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی۔ پس آنحضرت ﷺ کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکہ سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکہ پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا۔ چناچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی، انہیں ضرور بھی پہنچے، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کرلیا گیا ہے۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں ؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر، قیامت پر ایمان رکھنے والے، نمازی، زکوٰۃ ادا کرنے والے، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔ آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں ؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیزگاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد ﷺ ہیں اور آپ کے اصحاب ؓ اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں ؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر، رخسار جھکا کر، سیٹی بجائی، تالی بجائی، چلئے نماز ہوگئی۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا۔ بائیں طرف سے طواف کیا۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں، مومنوں کا مذاق اڑائیں، لوگوں کو راہ رب سے روکیں۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے، تلوار چلی، چیخ اور زلزلے آئے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 33 وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ ط اگرچہ وہ لوگ عذاب کے پوری طرح مستحق ہوچکے تھے ‘ لیکن جس طرح کے عذاب کے لیے وہ لوگ دعائیں کر رہے تھے ویسا عذاب سنت الٰہی کے مطابق ان پر اس وقت تک نہیں آسکتا تھا جب تک اللہ کے رسول ﷺ مکہ میں ان کے درمیان موجود تھے ‘ کیونکہ ایسے عذاب کے نزول سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے رسول علیہ السلام اور اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دے دیتا ہے اور ان کے نکل جانے کے بعد ہی کسی آبادی پر اجتماعی عذاب آیا کرتا ہے۔ وَمَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ۔اس لحاظ سے مکہ کی آبادی کا معاملہ بہت گڈ مڈ تھا۔ مکہ میں عوام الناس بھی تھے ‘ سادہ لوح لوگ بھی تھے جو اپنے طور پر اللہ کا ذکر کرتے تھے ‘ تلبیہ پڑھتے تھے اور اللہ سے استغفار بھی کرتے تھے۔ دوسری طرف اللہ کا قانون ہے جس کا ذکر اسی سورت کی آیت 37 میں ہوا ہے کہ جب تک وہ پاک اور ناپاک کو چھانٹ کر الگ نہیں کردیتا لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ اس وقت تک اس نوعیت کا عذاب کسی قوم پر نہیں آتا۔
وما لهم ألا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام وما كانوا أولياءه إن أولياؤه إلا المتقون ولكن أكثرهم لا يعلمون
سورة: الأنفال - آية: ( 34 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 181 )Surah Anfal Ayat 34 meaning in urdu
لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہو سکتے ہیں مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے
- خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ بےشک خدا کسی خیانت
- یہ اس لئے کہ جو لوگ خدا کی اُتاری ہوئی (کتاب) سے بیزار ہیں یہ
- جس باغ کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں کہ
- اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تو باز نہ
- جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مومنوں
- اور جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اس کو نہ ظلم
- اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس (کتاب) پر جو
- جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک کریں
- اور ہر شخص (ہمارے سامنے) آئے گا۔ ایک (فرشتہ) اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers