Surah anaam Ayat 35 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾
[ الأنعام: 35]
اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کو معاندین وکافرین کی تکذیب سے جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگاکر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھا دیں، تو اول آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر دکھائیں بھی تو یہ ایمان لانے کے نہیں۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل وفہم نہیں کرسکتے۔ البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اختیار وارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لئے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا، اس کے لئے لفظ ” كُنْ “ سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔
( 2 ) یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت وافسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت وتقدیر سے ہے، اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت ومصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ ﷺ سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں، فرماتا ہے کہ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے، آپ ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو، کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لئے حسرت و افسوس کریں گے ؟ سمجھا دیجئے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے۔ یہ لوگ دراصل آپ کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں۔ چنانجہ ابو جہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے، حکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بےدین سے تو مصافحہ کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ہم نے آج تک نبی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی۔ الغرض حضور کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے، امام محمد بن اسحاق ؒ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت زہری ؒ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابو جہل، ابو سفیان، صحر بن حرب، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بیخبر ی میں رسول اللہ ﷺ کا زبانی قرآن سننا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوگئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں ؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور سے قرآن سننے کے لئے چپ چاپ آگئے تھے۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہوجائیں گے۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کر کے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں ؟ میرے جانے کی کسے خبر ہوگی ؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہوگیا۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہوسکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہوگیا، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابو سفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابو حنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد ﷺ کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو ! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابو جہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے ؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ یہ کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کسی ہو رہی ہے، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے، اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہوجائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے۔ اخنس مایوس ہوگیا اور اٹھ کر چل دیا۔ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد ﷺ تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم ( یعنی ابو جہل ) سے بھی ملتا ہوں سنو ! اگر محمد ﷺ غالب آگئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آگئی تو ان میں تو تم ہی ہو، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا، اب خنس تنہائی میں ابو جہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد ﷺ تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے ؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا، اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد ﷺ بالکل سچے اور یقینا صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ نے جھوٹ نہیں بولا۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھر یرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہوگئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لئے کون سی فضیلت باقی رہ گئی ؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے، پس آیات اللہ سے مراد ذات حضرت محمد ﷺ ہے۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کرے گا اور آپ کے مخالفین مغلوب ہوں گے۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ کی ہی ہوگی۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ) 37۔ الصافات:171) یعنی ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں فرماتا ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ) 58۔ المجادلة:21) اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے، ان نبیوں کے اکثر قصے آپ کے سامنے بیان ہوچکے ہیں ان کے حالات آپ کو پہنچ چکے ہیں، آپ خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی، پھر فرماتا ہے اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھو دلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھتا پھرے، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو غم کر کے رہو، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کردیتا، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیے جیسے اور روایت میں ہے کہ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا، آپ کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی رفیق ہوگئی۔ پھر فرمایا کہ آپ کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہوگی جو کان لگا کر آپ کے کام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے، جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 35 وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط ہمارا تو فیصلہ اٹل ہے کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ آپ لے آئیں جہاں سے لاسکتے ہیں۔ غور کریں کس انداز میں حضور ﷺ سے گفتگو ہو رہی ہے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی اگر اللہ چاہتا تو آن واحد میں سب کو صاحب ایمان بنا دیتا ‘ نیک بنا دیتا۔فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ اس معاملے میں آپ جذباتی نہ ہوں۔ یہی لفظ سورة هود میں حضرت نوح علیہ السلام سے خطاب میں آیا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی کہ اے اللہ میرا بیٹا میری نگاہوں کے سامنے غرق ہوگیا جب کہ تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل کو تو بچا لے گا : اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ھود : 45 میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت سخت تھا : اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ذرا غور کریں ‘ یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس نے ساڑھے نوسو برس تک اللہ کی چاکری کی ‘ اللہ کے دین کی دعوت پھیلائی ‘ اس میں محنت کی ‘ مشقت کی اور ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں۔ لیکن اللہ کی شان بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ! اسی لیے فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگر سب کو ہدایت پر لانا مقصود ہو تو ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم آن واحد میں سب کو ابوبکر صدیق رض کی مانند بنا دیں ‘ اور اگر ہم سب کو بگاڑنا چاہیں تو آن واحد میں سب کے سب ابلیس بن جائیں۔ مگر اصل مقصود تو امتحان ہے ‘ آزمائش ہے۔ جو حق پر چلنا چاہتا ہے ‘ حق کا طالب ہے اس کو حق مل جائے گا۔
وإن كان كبر عليك إعراضهم فإن استطعت أن تبتغي نفقا في الأرض أو سلما في السماء فتأتيهم بآية ولو شاء الله لجمعهم على الهدى فلا تكونن من الجاهلين
سورة: الأنعام - آية: ( 35 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 131 )Surah anaam Ayat 35 meaning in urdu
تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا
- یہی لوگ ہیں جن کے لئے بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں بھی وہ
- اور خرچ بھی کریں تو (خدا کے لئے نہیں بلکہ) لوگوں کے دکھانے کو اور
- وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور (موت کے) وقت مقررہ تک تم کو مہلت
- اے یحییٰ (ہماری) کتاب کو زور سے پکڑے رہو۔ اور ہم نے ان کو لڑکپن
- دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ
- وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل
- پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا
- اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں
- اور دریا سے (کہ) خشک (ہو رہا ہوگا) پار ہو جاؤ (تمہارے بعد) ان کا
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers