Surah al imran Ayat 13 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ﴾
[ آل عمران: 13]
تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت خدا کی عظیم الشان) نشانی تھی ایک گروہ (مسلمانوں کا تھا وہ) خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ (کافروں کا تھا وہ) ان کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہا تھا اور خدا اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے جو اہل بصارت ہیں ان کے لیے اس (واقعے) میں بڑی عبرت ہے
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی ہر فریق، دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔ اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر ( یا 313 ) تھی، انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالیکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب ( تین گنا ) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم وحوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرعوب ہو جاتے۔ جب وہ تین گنا کے بجائے دو گنا نظر آئےتو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ لیکن یہ دگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی، پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے ( ابن کثیر ) یہ تفصیل سورۃ الانفال۔ آیت 44 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا۔ یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی۔ ایک تو اس لیے کہ یہ پہلی جنگ تھی۔ دوسرے، یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ مسلما ن ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جا رہا تھا، مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ تو بچا کر لے گیا، لیکن کفار مکہ اپنی طاقت وکثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں یہ پہلا معرکہ برپا ہوا۔ تیسرے، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی، چوتھے، اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی، جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اولین معرکہ حق و باطل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و مغلوب کئے جاؤ گے، ہارو گے، ماتحت بنو گے اور قیامت کے دن بھی ہانک کر جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جو بدترین بچھونا ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب بدر کی جنگ سے حضور ﷺ مظفر و منصور واپس ہوئے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہودیوں کو جمع کیا اور فرمایا ! اس سے پہلے کہ قریش کی طرح تمہیں بھی ذلت و پستی دیکھنا پڑے اسلام قبول کرلو، تو اس سرکش جماعت نے جواب دیا کہ چند قریشیوں کو جو فنون جنگ سے ناآشنا تھے، آپ نے انہیں ہرا لیا اور دماغ میں غرور سما گیا، اگر ہم سے لڑائی ہوئی تو ہم بتادیں گے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں، آپ کو ابھی تک ہم سے پالا ہی نہیں پڑا۔ اس پر یہ آیت اتری اور فرمایا گیا فتح بدر نے ظاہر کردیا ہے کہ اللہ اپنے سچے اچھے اور پسندیدہ دین کو اور اس دین والوں کو عزت و حرمت عطا فرمانے والا ہے، وہ اپنے رسول ﷺ کا اور آپ کی اطاعت گزار امت کا خود مددگار ہے۔ وہ اپنی باتوں کو ظاہر اور غالب کرنے والا ہے۔ دو جماعتیں لڑائی میں گھتم گتھا ہوگئی تھیں، ایک صحابہ کرام کی اور دوسری مشرکین قریش کی، یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے، اس دن مشرکین پر اس قدر رعب غالب آیا اور اللہ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی گو مسلمان گنتی میں مشرکین سے کہیں کم تھے لیکن مشرکوں کو اپنے سے دگنے نظر آتے تھے، مشرکوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جاسوسی کیلئے عمیر بن سعد کو بھیجا تھا جس نے آکر اطلاع دی تھی کہ تین سو ہیں، کچھ کم یا زائد ہوں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ صرف تین سو دَس اور کچھ تھے لیکن لڑائی کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل نے اپنے خاص اور چیدہ فرشتے ایک ہزار بھیجے۔ ایک معنی تو یہ ہیں، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کافر ہم سے دوچند ہیں، پھر بھی اللہ عزوجل نے انہی کی مدد کی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بدری صحابہ تین سو تیرہ تھے اور مشرکین چھ سو سولہ تھے۔ لیکن تواریخ کی کتابوں میں مشرکین کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تک بیان کی گئی ہے، ہوسکتا ہے حضرت عبداللہ کا قرآن کے الفاظ سے یہ استدلال ہو کہ ابن الحجاج قبلیہ کا جو سیاہ فام غلام پکڑا ہوا آیا تھا اس سے جب حضور نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کتنی ہے ؟ اس نے کہا بہت ہیں، آپ نے پھر پوچھا اچھا روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں، اس نے کہا ایک دن نو دوسرے دن دس، آپ نے فرمایا بس تو ان کی گنتی نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ پس مشرکین مسلمانوں سے تین گنے تھے واللہ اعلم، لیکن یہ یاد رہے کہ عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہزار تو ہیں لیکن مجھے ضرورت ایسے ہی دوگنا کی ہے اس سے مراد ان کی تین ہزار ہوتی ہے۔ اب کوئی مشکل باقی نہ رہی، لیکن ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ) 8۔ الأنفال:44) یعنی جب آمنے سامنے آگئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں کے سامنے کم کرکے دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں زیادہ کرکے دکھایا تاکہ جو کام کرنے کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا وہ ہوجائے۔ پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعداد سے بھی کم نظر آئے اور مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بلکہ دگنے نظر آئے۔ تو دونوں آیتوں میں تطبیق کیا ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول اور تھا اور اس کا وقت اور تھا، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ بدر والے دن ہمیں مشرکین کچھ زیادہ نہیں لگے، ہم نے غور سے دیکھا پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ ہم سے ان کی گنتی زیادہ نہیں، دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین کی تعداد اس قدر کم معلوم ہوئی کہ میں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر ہوں گے، اس نے کہا نہیں نہیں سو ہوں گے، جب ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا تو ہم نے اس سے مشرکین کی گنتی پوچھی، اس نے کہا ایک ہزار ہیں۔ اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہونے لگا کہ مشرکین ہم سے دوگنے ہیں۔ یہ اس لئے کہ انہیں اپنی کمزوری کا یقین ہوجائے اور یہ اللہ پر پورا بھروسہ کرلیں اور تمام تر توجہ اللہ کی جانب پھیر لیں اور اپنے رب عزوجل سے اعانت اور امداد کی دعائیں کرنے لگیں، ٹھیک اسی طرح مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد دوگنی معلوم ہونے لگی تاکہ ان کے دلوں میں رعب اور خوف بیٹھ جائے اور گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ جائے، پھر جب دونوں بھڑ گئے اور لڑائی ہونے لگی تو ہر فریق دوسرے کو اپنی نسبت کم نظر آنے لگا تاکہ ایک دل کھول کر حوصلہ نکالے اور اللہ تعالیٰ حق و باطل کا صاف فیصلہ کردے، ایمان و کفر و طغیان پر غالب آجائے۔ مومنوں کو عزت اور کافروں کو ذلت مل جائے، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ) 3۔ آل عمران:123) یعنی البتہ اللہ تعالیٰ نے بدر والے دن تمہاری مدد کی حالانکہ تم اس وقت کمزور تھے۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا اللہ جسے چاہے اپنی مدد سے طاقتور بنا دے، پھر فرماتا ہے اس میں عبرت و نصیحت ہے اس شخص کیلئے جو آنکھوں والا ہو جس کا دماغ صحیح وسالم ہو، وہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں لگ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو اس جہان میں بھی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا بچاؤ کرے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 13 قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِءَتَیْنِ الْتَقَتَا ط یعنی بدر کی جنگ میں ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف مشرکین مکہ تھے۔ اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے۔ فِءَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط اس کے کئی معانی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو تو کھلم کھلا نظر آ رہا تھا کہ ہمارے مقابل ہم سے دوگنی فوج ہے ‘ جبکہ وہ تگنی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں کفار پر ایسا رعب طاری کردیا تھا کہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ مسلمان ہم سے دگنے ہیں۔وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ یہ عبرت اور سبق آموزی صرف ان کے لیے ہوتی ہے جو آنکھیں رکھتے ہوں ‘ جن کے اندر دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اگلی آیت فطرت انسانی کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ بعض لوگوں میں خاص طور پر دنیا اور علائق دنیوی کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ یہاں اس کا اصل سبب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعتا یہ شے فطرت انسانی میں رکھی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قیامت تک آباد رکھنا ہے اور اس کی رونقیں بحال رکھنی ہیں۔ چناچہ مرد اور عورت کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہوگی تو اولاد پیدا ہوگی اور دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح دنیا قائم رہے گی۔ دولت کی کوئی طلب ہوگی تو آدمی محنت و مشقت کرے گا اور دولت کمائے گا۔ اس لیے یہ چیزیں فطرت انسانی میں basic animal instincts کے طور پر رکھ دی گئی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جبلی تقاضوں کو دبا کر رکھا جائے ‘ اللہ کی محبت اور اللہ کی شریعت کو اس سے بالاتر رکھا جائے۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ ان کو ختم کردیا جائے۔ تعذیب نفس اور نفس کشی self annihilation اسلام میں نہیں ہے۔ یہ تو رہبانیت ہے کہ اپنے نفس کو کچل دو ‘ ختم کر دو۔ جبکہ اسلام تزکیۂ نفس اور self control کا درس دیتا ہے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ نفس انسانی ایک منہ زور گھوڑا ہے۔ گھوڑا جتنا طاقت ور ہوتا ہے اتنا ہی سوار کے لیے تیز دوڑنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن منہ زور اور طاقتور گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ورنہ سوار اگر اس کے رحم و کرم پر آگیا تو وہ جہاں چاہے گا اسے پٹخنی دے دے گا۔
قد كان لكم آية في فئتين التقتا فئة تقاتل في سبيل الله وأخرى كافرة يرونهم مثليهم رأي العين والله يؤيد بنصره من يشاء إن في ذلك لعبرة لأولي الأبصار
سورة: آل عمران - آية: ( 13 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 51 )Surah al imran Ayat 13 meaning in urdu
تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا
- اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کے کاموں (کے وبال)
- (یعنی) خدا کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب
- یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا
- کہنے لگے ہائے شامت بےشک ہم ظالم تھے
- اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے
- مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے
- اور جب پہاڑ اُڑے اُڑے پھریں
- اور اپنے خیال سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ چارپائے اور کھیتی منع ہے
- اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers