Surah Al Hajj Ayat 36 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الحج کی آیت نمبر 36 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Al Hajj ayat 36 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
[ الحج: 36]

Ayat With Urdu Translation

اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔ تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو۔ جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیرفرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو

Surah Al Hajj Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) دْنٌ، بَدَنةٌ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔
( 2 ) صَوَافَّ مَصْفُوفَةً ( صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے ) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
( 3 ) یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بےروح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے۔ «مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ، فَهُوَ مَيْتَةٌ» ( أبو داود، كتاب الصيد، باب في صيد قطع منه قطعة- ترمذي، أبواب الصيد، باب ما جاء ما قطع من الحي فهو ميت، وابن ماجه ) ” جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ ( کاٹا ) ہوا گوشت مردہ ہے “۔
( 4 ) بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھا لیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
( 5 ) قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا میں نے تمہیں ( پہلے ) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں پس کھاؤ، کھلاؤ اور صدقہ کرو ( البخاری کتاب الاضاحی ۔ مسلم کتاب الاضاحی، باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث والسنن ) بعض علما دو حصے کرنے کے قائل ہیں۔ نصف اپنے لئے اور نصف صدقے کے لئے، وہ اس سے ما قبل گزرنے والی آیت «فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ» سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت کسی بھی ایت یا حدیث سے اس طرح کے دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا بلکہ ان میں مطلقاً کھانے کھلانے کا حکم ہے۔ اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ برقرار رہنا چاہیے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔ البتہ قربانی کی کھالوں کی بابت اتفاق ہے کہ اسے یا تو اپنے استعمال میں لاؤ یا صدقہ کردو، اسے بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، ( مسند احمد: 4/15 ) تاہم بعض علماء نے کھال خود بیچ کر اس کی قیمت فقراء پر تقسیم کرنے کی رخصت دی ہے، ( ابن کثیر ) ایک ضروری وضاحت: قرآن کریم میں یہاں قربانی کا ذکر مسائل حج کے ضمن میں آیا ہے، جس سے منکرین حدیث یہ استدلال کرتے ہیں کہ قربانی صرف حاجیوں کے ہی ہے۔ دیگر مسلمانوں کے لئے یہ ضروری نہیں۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ قربانی کرنے کا مطلق حکم بھی دوسرے مقام پر موجود ہے، «فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ» ( الکوثر:2 ) «اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر»۔ اس کی تبیین و تشریح ( عملی ) نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس طرح فرمائی کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) خود مدینے میں ہر سال 10 ذوالحجہ کو قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی تاکید کرتے رہے۔ چنانچہ صحابہ ( رضي الله عنهم ) بھی کرتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے قربانی کی بابت جہاں دیگر بہت سی ہدایات دیں، وہاں یہ بھی فرمایا کہ 10 ذوالحجہ کو ہم سب سے پہلے ( عید کی ) نماز پڑھیں اور اس کے بعد جاکر جانور ذبح کریں، فرمایا، جس نے نماز ( عید ) سے قبل اپنی قربانی کرلی، اس نے گوشت کھانے میں جلدی کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی، ( صحيح بخاري ، كتاب العيدين ، باب التبكير إلى العيد ، ومسلم كتاب الأضاحي ، باب ...
وقتها )
اس سے بھی واضح ہے کہ قربانی کا حکم ہر مسلمان کے لئے ہے وہ جہاں بھی ہو۔ کیوں کہ حاجی تو عید الاضحیٰ کی نماز ہی نہیں پڑھتے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم غیر حاجیوں کے لئے ہی ہے۔ تاہم یہ واجب نہیں ہے۔ سنت مؤکدہ ہے۔ اسی طرح دکھلاوے کی نیت سے کئی کئی قربانیاں کرنے کا رواج بھی خلاف سنت ہے۔ حدیث کے مطابق پورے گھر کے افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔ صحابہ کا عمل اسی کے مطابق تھا، ( ترمذي، أبواب الأضاحي، ما جاء أن الشاة الواحدة تجزئ عن أهل البيت، وابن ماجه )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ) 5۔ المآئدہ :2) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بےادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ وہ بدن میں داخل ہے۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانوروں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو ( ابن ماجہ ترمذی ) حضرت سفیان ثوری ؒ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں۔ ( دارقطنی ) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہوسکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول ﷺ کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر ) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے ( احمد داؤد ترمذی ) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا ( وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا۔ حضرت ابو رافع ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد ﷺ اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے۔ ( احمد ابن ماجہ ) صواف کے معنی ابن عباس ؓ نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر لا ایہ الا اللہم منک ولک ) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم ﷺ کی۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے۔ ( ابوداؤد ) حضرت سالم بن عبداللہ ؓ نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے۔ ابن مسعود ؓ کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑجائے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ ( احمد ابوداؤد ترمذی ) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں۔ امام ابن جریر ؒ کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ تہائی اپنے کھانے کو، تہائی دوستوں کے دینے کو، تہائی صدقہ کرنے کو۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ، جمع، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھاجائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے، بعض آدھا گوشت۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں۔ ( مسئلہ ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں ( بخاری مسلم ) اسی لئے امام شافعی ؒ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیا رھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں ( احمد، ابن حبان ) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو، جب چاہو دودھ نکال لو، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو۔ جیسے سورة یسٰین میں آیت ( اولم یروا ) سے ( افلا تشکرون ) تک بیان ہوا ہے۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری، ناقدری نہ کرو۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 36 وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ” قربانی کے جانور خاص طور پر اونٹ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌق ”کہ ان کا گوشت تم خود بھی کھاتے ہو اور غرباء کو بھی کھلاتے ہو۔فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ج ”صَوَافّ ‘ صافَّۃکی جمع ہے ‘ یعنی صف میں کھڑے ہوئے۔ یہ اونٹوں کی قربانی کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انہیں قبلہ رو صف بستہ کھڑے کر کے نحر کرو۔ چونکہ اونٹ کو گرا کر ذبح کرنا بہت مشکل ہے ‘ اس لیے کھڑے کھڑے ہی اس کی گردن میں برچھا مارا جاتا ہے۔ اس سے اس کی گردن کی بڑی رگ سے خون کا فوارہ چھوٹتا ہے اور جب زیادہ خون نکل جاتا ہے تو وہ خود بخود نیچے گرپڑتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی ‘ جن میں سے تریسٹھ اونٹوں کو آپ ﷺ نے اسی طریقے سے خود اپنے دست مبارک سے نحر فرمایا تھا۔ حضور ﷺ جونہی ایک اونٹ کو برچھا مارتے تھے اگلا اونٹ فوراً اپنی گردن حاضر کردیتا تھا۔ گویا آپ ﷺ کے ہاتھوں ذبح ہونا ان کے لیے ایک بہت بڑا عزاز تھا : ؂نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی !یہ شعور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اونٹ تو پھر جاندار ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تو ایک سوکھی لکڑی کو ایسا شعور عطا فرما دیا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے فراق میں بےقرار ہو کر رونے لگ پڑی تھی۔ یہ ایمان افروز واقعہ احادیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے ‘ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ شروع شروع میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر حضور ﷺ جس جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے وہاں کھجور کا ایک خشک تنا موجود تھا۔ آپ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے جب منبر بن گیا تو آپ ﷺ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا پسند فرمایا۔ لیکن جب آپ ﷺ پہلے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس خشک لکڑی سے ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو۔ یعنی وہ خشک لکڑی اپنی محرومی پر رو رہی تھی کہ آج کے بعد اسے حضور ﷺ کی معیت نصیب نہیں ہوگی۔ اس روز سے اس کا نام ”حنانہ “ رقت والی پڑگیا۔ بعد میں اس جگہ پر ایک ستون تعمیر کردیا گیا ‘ جو ” ستون حنانہ “ سے موسوم ہے۔ مولانا روم رح نے اپنے اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے : ؂فلسفی کو منکر حنانہّ است از حواس انبیاء بیگانہ است کہ فلسفی کو ” حنانہ “ ّ جیسے معاملہ کی سمجھ نہیں آسکتی ‘ اس لیے کہ وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں ہے۔ وہ تو انبیاء کرام علیہ السلام کو بھی عام لوگوں پر ہی قیاس کرتا ہے۔ ایک عقلیت پسند شخص تو ایسے واقعہ کو تسلیم کرنے سے فوراً انکار کر دے گا۔ سر سید احمد خاں بھلا کیسے تسلیم کرتے کہ ایک سوکھی لکڑی سے رونے کی آواز آسکتی ہے۔ بہر حال پرانے زمانے میں ایسی باتوں کا انکار فلسفی کیا کرتے تھے ‘ آج کل سائنس دان اور عقلیت پرست دانشور ان باتوں کے منکر ہیں۔فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا ”جب خون بہنے سے اونٹ کمزور ہوجاتا ہے تو پھر وہ ایک طرف کو اپنی کروٹ کے بل زمین پر گرپڑتا ہے۔فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط ”ایسے مواقع پر ان سفید پوش ناداروں کو بھی مت بھولوجو اپنی خود داری اور قناعت کے سبب کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو اپنی محرومی کے ہاتھوں بےقرار ہو کر مانگنے کے لیے آپ کے پاس آگئے ہیں۔کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ”اونٹ اتنا بڑا جانور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے اس انداز سے مسخر کردیا ہے کہ تم اسے برچھا مار کر نحر کرلیتے ہو اور پھر اس کا گوشت کھاتے ہو۔ اس کے لیے تم پر لازم ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکرا دا کیا کرو۔

والبدن جعلناها لكم من شعائر الله لكم فيها خير فاذكروا اسم الله عليها صواف فإذا وجبت جنوبها فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر كذلك سخرناها لكم لعلكم تشكرون

سورة: الحج - آية: ( 36 )  - جزء: ( 17 )  -  صفحة: ( 336 )

Surah Al Hajj Ayat 36 meaning in urdu

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ)
  2. اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح
  3. اے پروردگارہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا
  4. تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا۔ اور یہ دونوں شہر کھلے رستے پر
  5. اور اگر ہم اس قرآن کو غیر زبان عرب میں (نازل) کرتے تو یہ لوگ
  6. تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا
  7. پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے
  8. اور ہارون (جو) میرا بھائی (ہے) اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو
  9. ان کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے
  10. پس (اے محمدﷺ) جس طرح اور عالی ہمت پیغمبر صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
surah Al Hajj Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Al Hajj Bandar Balila
Bandar Balila
surah Al Hajj Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Al Hajj Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Al Hajj Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Al Hajj Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Al Hajj Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Al Hajj Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Al Hajj Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Al Hajj Fares Abbad
Fares Abbad
surah Al Hajj Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Al Hajj Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Al Hajj Al Hosary
Al Hosary
surah Al Hajj Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Al Hajj Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 14, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب