Surah Saba Ayat 36 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
[ سبأ: 36]
کہہ دو کہ میرا رب جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
Surah Saba Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس میں کفار کے مذکورہ مغالطے اور شبہے کا ازالہ کیا جا رہا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم رضا کی مظہر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت ومشیت سے ہے۔ اس لئے وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے فقیر رکھتا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نبی اکرم کے لئے تسلیاں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو تسلی دیتا ہے اور اگلے پیغمبروں کی سی سیرت رکھنے کو فرماتا ہے۔ فرماتا ہے کہ جس بستی میں جو رسول گیا اس کا مقابلہ ہوا۔ بڑے لوگوں نے کفر کیا، ہاں غربا نے تابعداری کی جیسے کہ قوم نوح نے اپنی نبی سے کہا تھا ( قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ01101ۭ ) 26۔ الشعراء:111) ہم تجھ پر کیسے ایمان لائیں تیرے ماننے والے تو سب نیچے درجے کے لوگ ہیں۔ یہی مضمون دوسری آیت ( وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ 27 ) 11۔ ھود :27) ، میں ہے۔ قوم صالح کے متکبر لوگ ضعیفوں سے کہتے ہیں ( اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ 75 ) 7۔ الأعراف:75) کیا تمہیں حضرت صالح کے نبی ہونے کا یقین ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم تو مومن ہیں۔ تو متکبرین نے صاف کہا کہ ہم نہیں مانتے۔ اور آیت میں ہے ( وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بالشّٰكِرِيْنَ 53 ) 6۔ الأنعام:53) ، یعنی اسی طرح ہم نے ایک کو دو سرے سے فتنے میں ڈالا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم سب میں سے احسان کیا۔ کیا اللہ شکر گذاروں کو جاننے والا نہیں ؟ اور فرمایا ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگ مجرم اور مکار ہوتے ہیں اور فرمان ہے ( وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا 16 ) 17۔ الإسراء :16) جب کسی بستی کی ہلاکت کا ہم ارادہ کرتے ہیں تو اس کے سرکش لوگوں کو کچھ احکام دیتے ہیں وہ نہیں مانتے پھر ہم انہیں ہلاک کردیتے ہیں۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ہم نے جس بستی میں کوئی نبی اور رسول بھیجا وہاں کے جاہ و حشمت شان و شوکت والے رئیسوں، امیروں، سرداروں اور بڑے لوگوں نے جھٹ اپنے کفر کا اعلان کردیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابو رزین فرماتے ہیں کہ دو شخص آپس میں شریک تھے ایک تو سمندر پار چلا گیا، ایک وہیں رہا جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو اس نے اپنے ساتھی سے لکھ کر دریافت کیا کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہے ؟ اس نے جواب میں لکھا کہ گرے پڑے لوگوں نے اس کی بات مانی ہے۔ شریف قریشیوں نے اس کی اطاعت نہیں کی۔ اس خط کو پڑھ کر وہ اپنی تجارت چھوڑ چھاڑ کر سفر کر کے اپنے شریک کے پاس پہنچا۔ یہ پڑھا لکھا آدمی تھا، کتابوں کا علم اسے حاصل تھا۔ اس سے پوچھا کہ بتاؤ حضور ﷺ کہاں ہیں ؟ معلوم کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز کی طرف بلاتے ہیں ؟ آپ نے اسلام کے ارکان اس کے سامنے بیان فرمائے۔ وہ اسے سنتے ہی ایمان لے آیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں اس کی تصدیق کیونکر ہوگئی ؟ اس نے کہا اس بات سے کہ تمام انبیاء کے ابتدائی ماننے والے ہمیشہ ضعیف مسکین لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اس پر یہ آیتیں اتریں اور حضور ﷺ نے آدمی بھیج کر ان سے کہلوایا کہ تمہاری بات کی سچائی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ اسی طرح ہرقل نے کہا تھا جب کہ اس نے ابو سفیان سے ان کی جاہلیت کی حالت میں آنحضرت ﷺ کی نسبت دریافت کیا تھا کہ کیا شریف لوگوں نے ان کی تابعداری کی ہے یا ضعیفوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ ضعیفوں نے۔ اس پر ہرقل نے کہا تھا کہ ہر رسول کی اولاً تابعداری کرنے والے یہی ضعیف لوگ ہوتے ہیں، پھر فرمایا یہ خوش حال لوگ ومال و اولاد کی کثرت پر ہی فخر کرتے ہیں اور اسے اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ وہ پسندیدہ ہیں اللہ کے۔ اگر اللہ کی خاص عنایت و مہربانی ان پر نہ ہوتی تو انہیں یہ نعمتیں نہ دیتا اور جب یہاں رب مہربان ہے تو آخرت میں بھی وہ مہربان ہی رہے گا۔ قرآن نے ہر جگہ اس کا رد کیا ہے ایک جگہ فرمایا ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55ۙ ) 23۔ المؤمنون :55) کیا ان کا خیال ہے کہ مال و اولادا کی اکثریت ان کے لئے بہتر ہے ؟ نہیں بلکہ برائی ہے لیکن یہ بےشعور ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے ( وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَاَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 85 ) 9۔ التوبة:85) ان کی مال و اولاد تجھے دھوکے میں نہ ڈالے اس سے انہیں دنیا میں بھی سزا ہوگی اور مرتے دم تک یہ کفر پر ہی رہیں گے اور آیات میں ہے ( ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11 ۙ ) 74۔ المدّثر:11) یعنی مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دے جسے بہت سے فرزند دے رکھے ہیں اور ہر طرح کا عیش اس کے لئے مہیا کردیا ہے۔ تاہم اسے طمع ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔ ایسا نہیں یہ ہماری آیتوں کا مخالف ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ اسے میں دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھاؤں گا۔ اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہوا ہے جس کے دو باغ تھے، مال والا پھلوں والا اولاد والا تھا۔ لیکن کسی چیز نے کوئی فائدہ نہ دیا عذاب الٰہی سے سب چیزیں دنیا میں ہی تباہ اور خاک سیاہ ہوگئیں۔ اللہ جس کی روزی کشادہ کرنا چاہے، کشادہ کردیتا ہے اور جس کی روزی تنگ کرنا چاہے، تنگ کردیتا ہے۔ دنیا میں تو وہ اپنے دوستوں دشمنوں سب کو دیتا ہے۔ غنی یا فقیر ہونا اس کی رضامندی اور ناراضگی کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس میں اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں اکثر لوگ جان نہیں سکتے، مال و اولاد کو ہماری عنایت کی دلیل بنانا غلطی ہے۔ یہ کوئی ہمارے پاس مرتبہ بڑھانے والی چیز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ ( مسلم ) ہاں اس کے پاس درجات دلانے والی چیز ایمان اور نیک اعمال ہیں۔ ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں بہت بڑھا چڑھا کردیئے جائیں گے۔ ایک ایک نیکی دس دس گنا بلکہ سات سات سو گنا کر کے دی جائے گی۔ جنت کی بلند ترین منزلوں میں ہر ڈر خوف سے، غم سے پر امن ہوں گے۔ کوئی دکھ درد نہ ہوگا۔ ایذاء اور صدمہ نہ ہوگا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے۔ ایک اعرابی نے کہا یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو نرم کلامی کرے، کھانا کھلائے، بکثرت روزے رکھے اور لوگوں کی نیند کے وقت تہجد پڑھے۔ ( ابن ابی حاتم ) جو لوگ اللہ کی راہ سے اوروں کو روکتے ہیں، رسولوں کی تابعداری سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں، اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہیں کرتے، وہ جہنم کی سزا میں حاضر کئے جائیں گے اور برا بدلہ پائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے مطابق جسے چاہے بہت ساری دنیا دیتا ہے اور جسے چاہے بہت کم دیتا ہے کوئی سکھ چین میں ہے کوئی دکھ درد میں مبتلا ہے۔ رب کی حکمتوں کو کوئی نہیں جان سکتا اس کی مصلحتیں وہی خوب جانتا ہے۔ جیسے فرمایا ( اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21 ) 17۔ الإسراء :21) تو دیکھ لے کہ ہم نے کس طرح ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور البتہ آخرت درجوں اور فضیلتوں میں بہت بڑی ہے۔ یعنی جس طرح فقر و غنا کے ساتھ درجوں کی اونچ نیچ یہاں ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی اعمال کے مطابق درجات و درکات ہوں گے۔ نیک لوگ تو جنتوں کے بلند وبالا خانوں میں اور بد لوگ جہنم کے نیچے کے طبقے کے جیل خانوں میں دنیا میں سب سے بہتر شخص رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ ہے جو سچا مسلمان ہو اور بقدر کفایت روزی پاتا ہو اور اللہ کی طرف سے قناعت بھی دیا گیا ہو۔ ( مسلم ) اللہ کے حکم یا اس کی اباحت کے ماتحت تم جو کچھ خرچ کرو گے اس کا بدلہ وہ تمہیں دونوں جہان میں دے گا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ہر صبح ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اللہ بخیل کے مال کو تلف اور برباد کر دوسرا دعا کرتا ہے اللہ خرچ کرنے والے کو نیک بدلہ دے۔ حضرت بلال ؓ سے ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا بلال خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے تنگی کا خیال بھی نہ کر۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تمہارے اس زمانے کے بعد ایسا زمانہ آ رہا ہے جو کاٹ کھانے الا ہوگا۔ مال ہوگا لیکن مالدار نے گویا اپنے مال پر دانت گاڑے ہوئے ہوں گے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے۔ پھر حضور ﷺ نے اسی آیت میں ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ ۭ وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ02700 ) 2۔ البقرة :270) کی تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے بدترین لوگ وہ ہیں جو بےبس اور مضطر لوگوں کی چیزیں کم داموں خریدتے پھریں۔ یاد رکھو ایسی بیع حرام ہے، مضطر کی بیع حرام ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے رسوا کرے۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کر ورنہ اس کی ہلاکت کو تو نہ بڑھا ( ابو یعلی موصلی ) یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور ضعیف بھی ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہیں اس آیت کا غلط مطلب نہ لے لینا۔ اپنے مال کو خرچ کرنے میں میانہ روی کرنا۔ روزیاں بٹ چکی ہیں، رزق مقسوم ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 36 { قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ } ” آپ ﷺ کہیے کہ یقینا میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے دنیا کا رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے “ اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی نعمتوں کی تقسیم لوگوں کے اعمال یا اعتقاد کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ چناچہ اگر کسی کے ہاں مال و دولت کی کثرت ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا منظورِ نظر ہے۔ حضرت سہل بن سعد الساعدی رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَــوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْھَا شَرْبَۃَ مَائٍ 1 ” اگر دنیا کی وقعت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے ایک َپر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا “۔ چناچہ جس مال اور اولاد پر یہ لوگ اتراتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ { وَلٰــکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ “ اکثر لوگ اللہ کی اس تقسیم کے فلسفے کے بارے میں لا علم ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی یا زیادتی کا تعلق کسی انسان کے اللہ کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے سے نہیں ہے۔
قل إن ربي يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر ولكن أكثر الناس لا يعلمون
سورة: سبأ - آية: ( 36 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 432 )Surah Saba Ayat 36 meaning in urdu
اے نبیؐ، اِن سے کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر
- خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو
- بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
- (لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل
- (یعنی) باغ اور چشمے
- اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو
- سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے
- اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت
- اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے ان کے لئے ذلیل کرنے
Quran surahs in English :
Download surah Saba with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saba mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saba Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers