Surah Saba Ayat 8 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ﴾
[ سبأ: 8]
یا تو اس نے خدا پر جھوٹ باندھ لیا ہے۔ یا اسے جنون ہے۔ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ آفت اور پرلے درجے کی گمراہی میں (مبتلا) ہیں
Surah Saba Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی ورسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔
( 2 ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کے بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کافروں کی جہالت۔کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے " لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے، اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کرکے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے، مجنوں ہے، بےسوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔ " اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں۔ آنحضرت ﷺ سچے ہیں، نیک ہیں، راہ یافتہ ہیں، دانا ہیں، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں، کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کردی۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش۔ جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47 ) 51۔ الذاريات:47) ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو، اسی طرح دائیں نظر ڈالو، بائیں طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق، اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کرکے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے ؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقینا تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔ جس میں عقل ہو جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو، جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو، جس کے سینے میں دل دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کردیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے ؟ جس نے ہڈیوں، گوشت، کھال کو ابتداً پیدا کیا۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کرکے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے ؟ اسی کو اور آیت میں فرمایا ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ 81 ) 36۔ يس :81) یعنی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے۔ اور آیت میں ہے ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57 ) 40۔ غافر:57) یعنی انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 8 { اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا } ” کیا اس نے جھوٹ باندھا ہے اللہ پر “ کیا محمد ﷺ نے اتنی بڑی جسارت کی ہے کہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے ؟ کہنے کو تو وہ ایک دوسرے سے یوں کہتے تھے اور خود اپنے آپ سے بھی یہ سوال کرتے تھے لیکن اصل حقیقت کو وہ خوب سمجھتے تھے کہ آپ ﷺ کی طرف سے جھوٹ گھڑنے کا کوئی ہلکا سا بھی امکان نہیں تھا۔ اندر سے ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ دیکھو ! اس شخص کی پچھلے چالیس برس کی زندگی تمہارے سامنے ہے۔ ان کی سیرت و کردار سے تم خوب واقف ہو۔ تم نے خود انہیں الصادق اور الامین کا خطاب دیا ہے۔ تو بھلا ایک ایسا شخص جس نے اپنی معمول کی زندگی میں کبھی کوئی چھوٹا سا بھی جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے اور وہ بھی اللہ کے بارے میں ! { اَمْ بِہٖ جِنَّــۃٌ} ” یا اسے جنون ہوگیا ہے ! “ کبھی کہتے ممکن ہے کہ ان پر آسیب کا سایہ آگیا ہو یا ان کا دماغی توازن خراب ہوگیا ہو ‘ اس لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہوں۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کا اپنا کوئی قصور نہیں اور انہیں جھوٹ کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس الزام پر بھی ان کے ضمیر پکار اٹھتے کہ اس پر غور تو کرو ! کیا اس کلام میں تم لوگوں کو واقعی دیوانگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ چناچہ واقعتا انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ماجرا آخر ہے کیا ؟ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ اگر بارہ سالہ مکی دور کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو مکی سورتوں کے درمیانی گروپس سورۃ الفرقان تا سورة السجدۃ اور سورة سبأ تا سورة الأحقاف میں ‘ سورة الشعراء کو چھوڑ کر کہ وہ ابتدائی دور کی سورت ہے ‘ باقی تمام وہ سورتیں ہیں جو درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور ان سب سورتوں کے مطالعہ کے دوران کفارِ مکہ کی یہی کیفیت سامنے آتی ہے۔ یعنی اس دور میں وہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں سخت الجھن اور شش و پنج کا شکار تھے۔ کبھی وہ آپ ﷺ کو شاعر کہتے ‘ کبھی جادوگر اور کبھی مجنون قرار دیتے ‘ مگر آپ ﷺ کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی موقف اپنانے سے قاصر تھے۔ البتہ آخری چار سالہ دور میں نازل ہونے والی پندرہ سورتوں یعنی سورة الأنعام ‘ سورة الأعراف اور سورة يونس تا سورة المؤمنون اس گروپ میں بھی سورة الحجر ایک ایسی سورت ہے جو ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ان کے اندر polarization ہوگئی تھی۔ یعنی مکی دور کے آخری سالوں میں حضور ﷺ کے بارے میں ان کے مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے تھے۔ { بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ فِی الْْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ } ” بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب میں اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ “ دُنیا میں بھی ان کی جان ضیق تنگی میں آئی ہوئی ہے اور وہ بڑی دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں آخرت کا یقین ہوتا تو یہ بات جو ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ‘ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی۔
أفترى على الله كذبا أم به جنة بل الذين لا يؤمنون بالآخرة في العذاب والضلال البعيد
سورة: سبأ - آية: ( 8 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 429 )Surah Saba Ayat 8 meaning in urdu
نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے ہے یا اسے جنون لاحق ہے" نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور و ہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) خدا کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے
- اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے
- یہ لوگ خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ان کو خدا ہدایت نہیں دیتا
- اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجتے رہے ہیں تو خوشخبری سنانے اور ڈرانے کو پھر
- (یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر
- بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضامندی
- جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا
- اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (یعنی مینھ) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (بنا
- ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے (شبِ تاریک میں) آگ
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا
Quran surahs in English :
Download surah Saba with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saba mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saba Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers