Surah al imran Ayat 37 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾
[ آل عمران: 37]
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حضرت زکریا ( عليه السلام ) ، حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے، اس لئے بھی، علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہاالسلام کی مادی ضروریات اور علمی واخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کر سکتے تھے۔
( 2 ) مِحْرَابٌ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں۔ رزق سے مراد پھل۔ یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے، گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا ( عليه السلام ) یا کوئی اور شخص لا کر دینے والا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت زکریا ( عليه السلام ) نے از راہ تعجب وحیرت پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا اللہ کی طرف سے۔ یہ گویا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت، جب چاہے صادر کر دے۔ اس لئے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، جیسا کہ اہل بدعت اولیا کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زکریا ؑ کا تعارف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حضرت حفصہ کی نذر کو اللہ تعالیٰ نے بخوشی قبول فرما لیا اور اسے بہترین طور سے نشوونما بخشی، ظاہری خوبی بھی عطا فرمائی اور باطنی خوبی سے بھرپور کردیا اور اپنے نیک بندوں میں ان کی پرورش کرائی تاکہ علم اور خیر اور دین سیکھ لیں، حضرت زکریا کو ان کا کفیل بنادیا ابن اسحاق تو فرماتے ہیں یہ اس لئے کہ حضرت مریم ( علیہما السلام ) یتیم ہوگئی تھیں، لیکن دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ حضرت زکریا نے اپنے ذمہ لے لیا تھا، ہوسکتا ہے کہ دونوں وجوہات اتفاقاً آپس میں مل گئی ہوں واللہ اعلم، حضرت ابن اسحاق وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ ان کے خالو تھے، اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کے بہنوئی تھے، جیسے معراج والی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہم السلام ) سے ملاقات کی جو دونوں خالہ زاد بھائی ہیں، ابن اسحاق کے قول پر یہ حدیث ٹھیک ہے کیونکہ اصلاح عرب میں ماں کی خالہ کے لڑکے کو بھی خالہ زاد بھائی کہہ دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ حضرت مریم اپنی خالہ کی پرورش میں تھیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی یتیم صاحبزادی عمرہ کو ان کی خالہ حضرت جعفر بن ابو طالب ؓ کی بیوی صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالہ قائم مقام ماں کے ہے، اب اللہ تعالیٰ حضرت مریم کی بزرگی اور ان کی کرامت بیان فرماتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ جب کبھی ان کے پاس ان کے حجرے میں جاتے تو بےموسمی میوے ان کے پاس پاتے مثلاً جاڑوں میں گرمیوں کے میوے اور گرمیوں میں جاڑے کے میوے۔ حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابو الشعشاء، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت ضحاک، حضرت قتادہ، حضرت ربیع بن انس، حضرت عطیہ عوفی، حضرت سدی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں، حضرت مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ یہاں رزق سے مراد علم اور وہ صحیفے ہیں جن میں علمی باتیں ہوتی تھیں لیکن اول قول ہی زیادہ صحیح ہے، اس آیت میں اولیاء اللہ کی کرامات کی دلیل ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سی حدیثیں بھی آتی ہیں۔ حضرت زکریا ؑ ایک دن پوچھ بیٹھے کہ مریم تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آتا ہے ؟ صدیقہ نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے، وہ جسے چاہے بےحساب روزی دیتا ہے، مسند حافظ ابو یعلیٰ میں حدیث ہے کہ حضور ﷺ پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گذر گئے بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی اپنی سب بیویوں کے گھر ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ پایا۔ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی تمہارے پاس کچھ ہے ؟ کہ میں کھا لوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ حضور ﷺ پر میرے باپ صدقے ہوں کچھ بھی نہیں، اللہ کے نبی ﷺ وہاں سے نکلے ہی تھے کہ حضرت فاطمہ کی لونڈی نے دو روٹیاں اور ٹکڑا گوشت حضرت فاطمہ کے پاس بھیجا آپ نے اسے لے کر برتن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں گو مجھے، میرے خاوند اور بچوں کو بھوک ہے لیکن ہم سب فاقے ہی سے گذار دیں گے اور اللہ کی قسم آج تو یہ رسول اللہ ﷺ ہی کو دوں گی، پھر حضرت حسن یا حسین کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں، حضور ﷺ راستے ہی میں ملے اور ساتھ ہو لئے، آپ آئے تو کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ نے کچھ بھجوا دیا ہے جسے میں نے آپ کے لئے چھپا کر رکھ دیا ہے، آپ نے فرمایا میری پیاری بچی لے آؤ، اب جو طشت کھولا تو دیکھتی ہے کہ روٹی سالن سے ابل رہا ہے دیکھ کر حیران ہوگئیں لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ اللہ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہوگئی ہے، اللہ کا شکر کیا نبی ﷺ اللہ پر درود پڑھا اور آپ کے پاس لا کر پیش کردیا آپ نے بھی اسے دیکھ کر اللہ کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ بیٹی یہ کہاں سے آیا ؟ جواب دیا کہ ابا جان اللہ کے پاس سے وہ جسے چاہے بےحساب روزی دے، آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار جیسا کردیا، انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ اللہ کے پاس سے ہے اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے، پھر حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور آپ نے حضرت علی نے اور حضرت فاطمہ نے اور حضرت حسین نے اور آپ کی سب ازواج مطہرات اور اہل بیت نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا یہ خیر کثیر اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 37 فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ شرف قبول عطا فرمایا بڑے ہی خوبصورت انداز میں۔ وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًالا وَّکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ط حضرت زکریا علیہ السلام ان کے سرپرست مقرر ہوئے اور انہوں نے حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ حضرت مریم علیہ السلام کے خالو تھے۔ آپ علیہ السلام وقت کے نبی تھے اور اسرائیلی اصطلاح میں ہیکل سلیمانی کے کاہن اعظم Chief Priest بھی تھے۔ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَلا وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ج محراب سے مراد وہ گوشہ یا حجرہُ ہے جو حضرت مریم علیہ السلام کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام ان کی دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے حجرے میں جاتے تھے۔ آپ علیہ السلام جب بھی حجرے میں جاتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس کھانے پینے کی چیزیں اور بغیر موسم کے پھل موجود ہوتے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ یہاں رزق سے مراد مادی کھانا نہیں ‘ بلکہ علم و حکمت ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام ان سے بات کرتے تھے تو حیران رہ جاتے تھے کہ اس لڑکی کو اس قدر حکمت اور اتنی معرفت کہاں سے حاصل ہوگئی ہے ؟قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ط یہ انواع و اقسام کے کھانے اور بےموسمی پھل تمہارے پاس کہاں سے آجاتے ہیں ؟ یا یہ علم و حکمت اور معرفت کی باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوتی ہیں ؟قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط۔یہ سب اس کا فضل اور اس کا کرم ہے۔
فتقبلها ربها بقبول حسن وأنبتها نباتا حسنا وكفلها زكريا كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقا قال يامريم أنى لك هذا قالت هو من عند الله إن الله يرزق من يشاء بغير حساب
سورة: آل عمران - آية: ( 37 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 54 )Surah al imran Ayat 37 meaning in urdu
آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اُسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا اور زکریاؑ کوا س کا سرپرست بنا دیا زکریاؑ جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا پوچھتا مریمؑ! یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو ہم نیک لوگوں
- ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق
- اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں
- خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ اور خدا
- (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے
- وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے
- جن لوگوں نے خدا کے حکم کو قبول کیا ان کی حالت بہت بہتر ہوگی۔
- ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا
- جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح
- الزام تو ان لوگوں پر ہے۔ جو دولت مند ہیں اور (پھر) تم سے اجازت
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers