Surah Ankabut Ayat 39 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ﴾
[ العنكبوت: 39]
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (ہلاک کر دیا) اور اُن کے پاس موسٰی کھلی نشانی لےکر آئے تو وہ ملک میں مغرور ہوگئے اور ہمارے قابو سے نکل جانے والے نہ تھے
Surah Ankabut Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی دلائل ومعجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا، اور بدستور متکبر بنے رہے یعنی ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔
( 2 ) یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اسی طرح کفر وعناد کا راستہ اختیار کیے رکھا تھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
احقاف کے لوگ عادی حضرت ہود ؑ کی قوم تھے۔ احقاف میں رہتے تھے جو یمن کے شہروں میں حضرموت کے قریب ہے۔ ثمودی حضرت صالح ؑ کی قوم کے لوگ تھے۔ یہ حجر میں بستے تھے جو وادی القریٰ کے قریب ہے۔ عرب کے راستے میں ان کی بستی آتی تھی جسے یہ بخوبی جانتے تھے۔ قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اسکا وزیر اعظم تھا۔ اسی کے زمانے میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ ؑ نبی ہو کر اس کی طرف بھیجے گئے۔ یہ دونوں قبطی کافر تھے جب ان کی سرکشی حد سے گذر گئی اللہ کی توحید کے منکر ہوگئے رسولوں کو ایذائیں دیں اور ان کی نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا۔ عادیوں پر ہوائیں بھیجیں۔ انہیں اپنی قوت وطاقت کا بڑا گھمنڈ تھا کسی کو اپنے مقابلے کا نہ جانتے تھے۔ ان پر ہوا بھیجی جو بڑی تیز وتند تھی جو ان پر زمین کے پتھر اڑا اڑا کر برسانے لگی۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک بڑھ گئی کہ انہیں اچک لے جاتی اور آسمان کے قریب لے جاکر پھر گرا دیتی۔ سر کے بل گرتے اور سر الگ ہوجاتا دھڑ الگ ہوجاتا اور ایسے ہوجاتے جیسے کجھور کے درخت جس کے تنے الگ ہوں اور شاخیں جدا ہوں۔ ثمودیوں پر حجت الٰہی پوری ہوئی دلائل دے دئیے گئے ان کی طلب کے موافق پتھر میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی لیکن تاہم انہیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ طغیانی میں بڑھتے رہے۔ اللہ کے نبی کو دھمکانے اور ڈرانے لگے اور ایمانداروں سے بھی کہنے لگے کہ ہمارے شہر چھوڑ دو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ انہیں ایک چیخ سے پارہ پارہ کردیا۔ دل ہل گئے کلیجے اڑگئے اور سب کی روحیں نکل گئیں۔ قارون نے سرکشی اور تکبر کیا۔ طغیانی اور بڑائی کی رب الاعلیٰ کی نافرمانی کی زمین میں فساد مچا دیا۔ اکڑ اکڑ کر چلنے لگا اپنے ڈنٹر بل دیکھنے لگا اترانے لگا اور پھولنے لگا۔ پس اللہ نے اسے مع اس کے محلات کے زمین دوز کردیا جو آج تک دھنستا چلا جارہا ہے۔ فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو صبح ہی صبح ایک ساتھ ایک ہی ساعت میں دریا برد کردیا۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچا جو ان کا نام تو کبھی لیتا۔ اللہ نے یہ جو کچھ کیا کچھ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ ان کے ظلم کا بدلہ تھا۔ ان کے کرتوت کا پھل تھا ان کی کرنی کی بھرنی تھی۔ یہ بیان یہاں بطور لف ونشر کے ہے۔ اولا جھٹلانے والی امتوں کا ذکر ہوا ہے پھر ان میں سے ہر ایک کو عذابوں سے ہلاک کرنیکا۔ کسی نے کہا کہ سب سے پہلے جن پر پتھروں کا مینہ برسانے کا ذکر ہے ان سے مراد لوطی ہیں اور غرق کی جانے والی قوم قوم نوح ہے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ ابن عباس سے یہ مروی تو ہے لیکن سند میں انقطاع ہے۔ ان دونوں قوموں کی حالت کا ذکر اسی صورت میں بہ تفصیل بیان ہوچکا ہے۔ پھر بہت سے فاصلے کے بعد یہ بیان ہوا ہے۔ قتادۃ سے یہ بھی مروی ہے کہ پتھروں کا مینہ جن پر برسایا گیا ان سے مراد لوطی ہیں اور جنہیں چیخ سے ہلاک کیا گیا ان سے مراد قوم شعیب ہے لیکن یہ قول بھی ان آیتوں سے دور دراز ہے واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 38 وَعَادًا وَّثَمُوْدَا وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَکُمْ مِّنْ مَّسٰکِنِہِمْوقفۃ ” تمہیں سب معلوم ہے کہ یہ قومیں کس کس علاقے میں کہاں کہاں آباد تھیں۔وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ ”شیطان کے زیر اثر انہیں اپنے مشرکانہ افعال و اعمال بہت خوش نما لگتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ان ہی میں مگن رہتے تھے۔فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ ”استبصار باب ”استفعال “ سے ہے۔ اس کے معنی بغور دیکھنا کے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ لوگ بڑے باریک بین تھے ‘ ہرچیز کا مشاہدہ بڑی احتیاط سے کرتے تھے ‘ بڑے ہوشیار اور دانشور قسم کے لوگ تھے ‘ مگر اس کے باوجود انہیں راہ راست سجھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ تضاد اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سمجھدار انسان اپنی ناک کے نیچے کے پتھر سے ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج یہ لوگ کیسی کیسی ایجادات کر رہے ہیں۔ کائنات کے کیسے کیسے حقائق تک آج ان کی رسائی ہے۔ اربوں ‘ کھربوں نوری سالوں کی دوری پر نئے نئے ستاروں کو دریافت کر رہے ہیں۔ کیسے کیسے آلات کی مدد انہیں حاصل ہے اور ان آلات کے ذریعے کیسے کیسے مشاہدات ان کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کے ذہن خالق کائنات اور مدبر کائنات کی طرف منتقل نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک مادی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کی دوسری روحانی آنکھ بالکل اندھی ہے۔ ایسے ہی سائنسدانوں اور دانشوروں کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا : ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا !یعنی یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے رازوں کی کھوج میں تو لگے ہوئے ہیں اور تحقیق کے اس میدان میں آئے روز نت نئی کامیابیوں کے جھنڈے بھی گاڑ رہے ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی اپنی ذات کے بارے میں جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں ؟ مجھے کہاں جانا ہے ؟ میری اس زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ ان کے نزدیک تو زندگی بھی جانوروں کی طرح پیدا ہونے ‘ کھانے پینے ‘ نسل بڑھانے اور مرجانے کا نام ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موت پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انسانی زندگی ان دانشوروں کے خیال میں یہی کچھ ہے تو پھر یہ واقعی ایک کھیل ہے۔ اور کھیل بھی بقول بہادر شاہ ؔ ظفربس چار دن کا ! عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں !اس ” دانشورانہ “ نقطہ نظر کے مطابق جائزہ لیں تو انسانی زندگی کی تہی دامانی اور بےبضاعتی پر ترس آتا ہے۔ ماہ و سال کے اس میزانیہ میں سے کچھ وقت تو بچپنے کے بھولپن میں بیت گیا ‘ کچھ لڑکپن کے کھیل کود اور شرارتوں میں۔ جوانی آئی تو سنجیدہ سوچ کی گویا بساط ہی الٹ گئی۔ جوانی کا خمار اترا اور ہوش سنبھالنے کی فرصت محسوس ہوئی تو بڑھاپے کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اور اگر کوئی زیادہ سخت جان ثابت ہوا تو اسے ” ارذل العمر “ میں لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا کے نوشتہ تقدیر کا سامنا کرنا پڑا۔۔ تو کیا یہی ہے انسان کی اس ” انمول “ زندگی کی حقیقت ؟ کیا اسی کے بل پر انسان اشرف المخلوقات بنا تھا ؟ اور کیا اسی برتے پر یہ مسجود ملائک ٹھہرا تھا ؟ اور کیا : ع ” اِک ذرا ہوش میں آنے کے خطاکار ہیں ہم ؟ “۔۔ نہیں ‘ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ! انسانی زندگی اتنی ارزاں کیونکر ہوسکتی ہے ؟ انسانی زندگی فقط پیدا ہونے ‘ کھانے پینے اور چند سال زندہ رہنے کے دورانیے تک ہرگز محدود نہیں ہوسکتی ! بلکہ یہ اس تصور سے بہت اعلیٰ اور بہت بالا ایک ابدی حقیقت ہے۔ بقول اقبالؔ :r ُ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !دراصل جس ” دورانیے “ کو یہ لوگ زندگی سمجھے بیٹھے ہیں وہ تو اصل زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ انسانی زندگی کا اصل اور بڑا حصہ تو وہ ہے جس کا آغاز انسان کی موت کے بعد ہونے والا ہے۔ اس دنیا کی زندگی تو انسان کے لیے محض ایک وقفہ امتحان ہے اور بس !
وقارون وفرعون وهامان ولقد جاءهم موسى بالبينات فاستكبروا في الأرض وما كانوا سابقين
سورة: العنكبوت - آية: ( 39 ) - جزء: ( 20 ) - صفحة: ( 401 )Surah Ankabut Ayat 39 meaning in urdu
اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پس وہ اس روز عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے
- اور خیال کرتا تھا کہ (خدا کی طرف) پھر کر نہ جائے گا
- اور جب مشرک (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ پروردگار
- یہ جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں (خواہ) وہ کچھ ہی ہو خدا
- اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے
- جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی
- تو تم بھی ان کی کچھ پروا نہ کرو۔ جس دن بلانے والا ان کو
- کیا یہ (کافر) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس (جان نکالنے)
- اور لوگوں نے جیسے کام کئے ہوں گے ان کے مطابق سب کے درجے ہوں
- کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال برباد کیا
Quran surahs in English :
Download surah Ankabut with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ankabut mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ankabut Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers