Surah muhammad Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ﴾
[ محمد: 4]
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
Surah muhammad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب دونوں فریقوں کا ذکر کر دیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے کے بجائے۔ گردنیں مارنے کا حکم دیا، کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ ( فتح القدیر )۔
( 2 ) یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد، ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں، انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
( 3 ) مَنٌّ کا مطلب ہے بغیر فدیہ کا لئے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب، کچھ معاوضہ لےکر چھوڑنا ہے، قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت، حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کےحق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کر لی جائے۔
( 4 ) یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے، یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کرکےہتھیار رکھ دے یا اسلام غالب آجائے اور کفر کا خاتمہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ صورت حال نہ ہو جائے، کافروں کے ساتھ تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے، بعض کہتےہیں، یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کےکوئی صورت باقی نہیں ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے۔ اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے، کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے۔ قیدیوں میں سے جس کو یاسب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ ( فتح القدیر )۔
( 5 ) یا تم اسی طرح کرو، افْعَلُوا ذَلِك یا ذَلِكَ حُكْمُ الْكُفَّارِ۔
( 6 ) مطلب کافروں کو ہلاک کرکے یا انہیں عذاب میں مبتلا کرکے۔ یعنی ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
( 7 ) یعنی تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ وہ جان لے کہ تم میں سے اس کی راہ میں لڑنے والے کون ہیں؟ تاکہ ان کو اجر وثواب دے اور ان کے ہاتھوں سے کافروں کو ذلت وشکست سے دوچار کرے۔
( 8 ) یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہوجائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے دستی لڑائی شروع ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کرلو جب لڑائی ختم ہوچکے معرکہ پورا ہوجائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 ) 8۔ الأنفال:67) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9۔ التوبة:5) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ ﷺ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اب لڑائی آگئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت ( وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39 ) 8۔ الأنفال:39) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کردیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورة آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ آل عمران میں ہے آیت ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ01402 ) 3۔ آل عمران:142) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورة براۃ میں ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ ) 9۔ التوبة:14) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو در و یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ) 10۔ يونس:9) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کرچکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہوجائے گا۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40 ) 22۔ الحج:40) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑجائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کردیا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4 { فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” تو اے مسلمانو ! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو کافروں سے “ اب جبکہ تمہاری جدوجہد مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور تم لوگ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے لیے میدان میں اتر پڑے ہو تو جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے : { فَضَرْبَ الرِّقَابِ } ” تو ان کی گردنیں مارنا ہے ! “ اب میدان کارزار میں تمہاری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ جو دشمن حق تمہارے سامنے آئے وہ بچ کر نہ جائے۔ لہٰذا ان کی گردنیں اُڑائو ‘ انہیں قتل کرو ! { حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ } ” یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح سے ُ کچل دو تب انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھو “ یعنی اس مرحلے پر تم بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنا سکتے ہو۔ { فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا } ” پھر اس کے بعد تم انہیں چھوڑ سکتے ہو احسان کر کے یا فدیہ لے کر ‘ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ “ اس آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : ” فَضَرْبَ الرِّقَابِ ، حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً “۔ گویا اس جملے کے مطابق مقابلے کے مختلف مراحل کی ترتیب یہ ہوگی : پہلے ان کی گردنیں مارو ‘ جب ان کی طاقت اچھی طرح کچل ڈالی جائے تب انہیں قید میں مضبوط باندھو۔ پھر جب جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد انہیں چھوڑا جاسکتا ہے ‘ چاہے احسان کر کے چھوڑو یا فدیہ لے کر۔ آیت کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس اہم فلسفے کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو یہاں ” حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا “ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے انگریزی کے دو الفاظ war اور battle کو ذہن میں رکھئے۔ war سے مراد دو فریقوں کی باہمی محاذ آرائی اور کشمکش ہے جو ایک فریق کے فتح یاب اور دوسرے کے سرنگوں ہونے تک جاری رہتی ہے ‘ جبکہ battle سے مراد اس محاذ آرائی کے دوران متعلقہ فریقوں کے درمیان ہونے والا کوئی خاص معرکہ ہے۔ گویا ایک جنگ war کے دوران میں کئی لڑائیاں battles ہوسکتی ہیں۔ اب رسول اللہ ﷺ کی جدوجہد کے حوالے سے اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ مدنی دور میں غلبہ دین کی جنگ war چھ سال تک مسلسل جاری رہی۔ -۔ - اس میں صرف صلح حدیبیہ کی وجہ سے کچھ مدت کے لیے ایک وقفہ آیا تھا۔ -۔ - اس جنگ کے دوران غزوئہ بدر Battle of Badar ‘ غزوئہ اُحد Battle of Uhad ‘ غزوہ احزاب Battle of Ahzaab ‘ غزوہ بنی مصطلق Battle of Bani Mustalaq اور بہت سی دوسری لڑائیاں لڑی گئیں۔ لیکن جنگ war نے مکمل طور پر ہتھیار اس وقت ڈالے جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین اس حد تک غالب ہوگیا کہ اس کے مقابلے میں باطل کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم میں جب باطل قوتوں کو علی الاعلان للکارا جا چکاہو اور مردانِ حق اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اتر پڑے ہوں تو یہ پنجہ آزمائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل پوری طرح سرنگوں نہ ہوجائے۔ اس دوران کسی مہم یا کسی لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو کسی بھی شرط پر آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انہیں اگلے معرکے میں دوبارہ اپنے مقابلے میں آنے کا موقع دے رہے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں کفار کے ّستر 70 جنگجوئوں کے مارے جانے سے ان کی طاقت کو ایک حد تک تو نقصان پہنچا تھا ‘ مگر ان کی جنگی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ چناچہ ان کے 70 قیدیوں کی آزادی ان کے لیے پھر سے تقویت کا باعث بن گئی اور فدیہ دے کر آزاد ہونے والے قیدیوں میں سے اکثر افراد اگلے سال مسلمانوں کے مقابلے کے لیے پھر سے میدان میں تھے۔ دوسری طرف اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے سے متعلق حضور ﷺ کا فیصلہ ایک اجتہاد تھا ‘ جس کا تعلق جانچ judgement سے تھا۔ یعنی اس معاملے میں حضور ﷺ کا اندازہ تھا کہ کفار کی طاقت کچلی جا چکی ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہر حال اجتہاد کی دونوں صورتیں خطا اور صواب ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں اور دونوں پر ہی اجر بھی ملتا ہے۔ البتہ اجتہاد میں تصویب کی صورت میں دہرے اجر کا وعدہ ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں چونکہ قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لیے حضور ﷺ نے اس اختیار کی رو سے مذکورہ فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بہتر طور پر معلوم تھا کہ کفر کی جنگی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی لیے سورة الأنفال جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی میں حضور ﷺ کے اس فیصلے سے متعلق یہ تبصرہ نازل ہوا تھا : { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } ” کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ کافروں کو قتل کرکے زمین میں خوب خوں ریزی نہ کر دے۔ تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو ‘ اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے ‘ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے “۔ { لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } ” اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو جو کچھ فدیہ وغیرہ تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا “۔ یہاں ” کتاب “ سے مراد آیت زیر مطالعہ کا یہ حکم ہے جس میں فدیہ کے عوض قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة محمد ﷺ کی آیت 4 کا حکم پہلے سے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تم پر سخت گرفت ہوتی۔ { فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ” تو اب کھائو جو تمہیں ملا ہے غنیمت میں سے کہ وہ تمہارے لیے حلال اور طیب ہے ‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ‘ رحم فرمانے والا ہے۔ “ سورة الأنفال کی یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بھی آیت زیر مطالعہ کی درست تفہیم ضروری ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں خوب قتل کرو ‘ پھر جب کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ جائے تو ان کے بچے کھچے زندہ افراد کو قیدی بھی بنا یا جاسکتا ہے۔ پھر جب دشمن کی طرف سے مزاحمت بالکل ختم ہوجائے اور اس کے خلاف تمہاری جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو قیدیوں کو آزاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ چاہے ان کے عوض فدیہ لے لو یا احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ انہیں رہا کر دو۔ { ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ } ” یہ ہے اس بارے میں حکم ‘ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا “ { وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ } ” لیکن اللہ آزماتا ہے تمہارے بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے سے۔ “ اللہ تعالیٰ ان کفار سے خود بھی انتقام لے سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو میدانِ بدر میں کفار کے ایک ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کو آنِ واحد میں بھسم کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے تمہارے تین سو تیرہ افراد کو ایک ہزار کے طاقت ور لشکر کے مقابلے میں لا کر تمہارے صبر و ایمان اور جذبہ استقامت کا امتحان لینا پسند کیا۔ { وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ } ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ “ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا انہیں بھر پور صلہ دے گا۔
فإذا لقيتم الذين كفروا فضرب الرقاب حتى إذا أثخنتموهم فشدوا الوثاق فإما منا بعد وإما فداء حتى تضع الحرب أوزارها ذلك ولو يشاء الله لانتصر منهم ولكن ليبلو بعضكم ببعض والذين قتلوا في سبيل الله فلن يضل أعمالهم
سورة: محمد - آية: ( 4 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 507 )Surah muhammad Ayat 4 meaning in urdu
پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا
- تو ان کو بھونچال نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل
- تو جس وقت تم کو شام ہو اور جس وقت صبح ہو خدا کی تسبیح
- تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
- یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس لے لے کر
- اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ خدا کی
- اور یہ (بھی) کہ نماز پڑھتے رہو اور اس سے ڈرتے رہو۔ اور وہی تو
- اور وہ ان کو لے کر (طوفان کی) لہروں میں چلنے لگی۔ (لہریں کیا تھیں)
- اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ
Quran surahs in English :
Download surah muhammad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah muhammad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter muhammad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers