Surah Najm Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾
[ النجم: 4]
یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے
Surah Najm Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی وہ گمراہ یا بہک کس طرح سکتا ہے، وہ تو وحی الٰہی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتا، حتیٰ کہ مزاح اور خوش طبعی کےموقعوں پر بھی آپ ﹲ کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔ ( سنن الترمذي، أبواب البر، باب ما جاء في المزاح ) اسی طرح حالت غضب میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی ( أبو داود، كتاب العلم، باب في كتاب العلم )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھالے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی ( ابن ابی حاتم ) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہوسکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے۔ اس آیت جیسی ہی آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75 ۙ ) 56۔ الواقعة :75) ہے۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں حضور ﷺ سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چناچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور ﷺ کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4 { اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ } ” یہ تو صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ “ اگلی آیات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے جنہوں نے نبی مکرم ﷺ کو اس کلام کی تعلیم دی۔ یہ مضمون دوسری مرتبہ 30 ویں پارے کی سورة التَّکوِیر میں آیا ہے۔ دونوں عبارتوں میں ایک خوبصورت مماثلت یہ ہے کہ وہاں بھی حضور ﷺ کا ذکر صَاحِبُـکُمْ کے لفظ سے کیا گیا ہے :{ وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ۔ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ۔ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۔ } التکویر” اور مکے والو تمہارے یہ رفیق دیوانے نہیں ہیں۔ بیشک انہوں نے اس جبرائیل کو کھلے افق پر دیکھا ہے۔ اور وہ غیب کے معاملے میں بخیل نہیں ہیں۔ اور یہ ہرگز کسی شیطان رجیم کا قول نہیں ہے۔ “ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے تو وہ حضور ﷺ کو نظر نہیں آتے تھے اور نہ ہی وحی کو آپ ﷺ اپنے کانوں سے سن سکتے تھے۔ فرشتے اور وحی دونوں کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اس لیے ان کا نزول بھی آپ ﷺ کی شخصیت کے اس حصے پر ہوتا تھا جو عالم امر سے متعلق تھا ‘ یعنی آپ ﷺ کی روح مبارک۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ انسانی روح کا مسکن چونکہ قلب انسانی ہے اس لیے وحی کا نزول براہ راست حضور ﷺ کے قلب مبارک پر ہوتا تھا : ؎ نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو رُوح سنے اور روح سنائے ! تاہم حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضور ﷺ کے پاس انسانی شکل میں آنا بھی ثابت ہے۔ روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس آتے تو عموماً خوبصورت نوجوان صحابی حضرت دحیہ کلبی رض کی شکل میں آتے جو بہت عظیم انسان تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انسانی شکل میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی حضور ﷺ سے جو گفتگو ہوتی وہ ” وحی متلو “ یعنی قرآن میں شامل نہیں ہے۔ مثلاً ” حدیث جبریل علیہ السلام “ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ حضور ﷺ کے مکالمے کی تفصیل درج ہے۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں حضور ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے دین کے بارے میں چند بنیادی سوالات پوچھے۔ آپ ﷺ نے ان سوالات کے جوابات دیے۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو بتایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اس حدیث کا مضمون اس قدر اہم ہے کہ محدثین نے اسے ” اُمُّ السُّنَّہ “ قرار دیا ہے ‘ لیکن اس حدیث کے مندرجات قرآن میں شامل نہیں۔ البتہ حضور ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں بھی دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ تو آپ ﷺ نے انہیں آغاز نبوت کے زمانے میں دیکھا تھا۔ یہ واقعہ ” فترتِ وحی “ کے دنوں میں پیش آیا۔ پہلی وحی کے بعد وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع رہا ‘ اس وقفے کو ” فترتِ وحی “ کہا جاتا ہے۔ ایک دن آپ ﷺ غارِ حرا سے اتر رہے تھے تو آپ ﷺ نے ایک آواز سنی ” یامحمد ! “ آپ ﷺ نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے سمجھا کہ شاید مجھے دھوکہ ہوا ہے ‘ لیکن دوسرے ہی لمحے وہی آواز پھر سنائی دی۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ کو جب کوئی انسان دکھائی نہ دیا تو آپ ﷺ کو کچھ خوف محسوس ہوا۔ تیسری مرتبہ جب آپ ﷺ نے پھر وہی آواز سنی تو آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اوپر دیکھنے سے آپ ﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی ملکوتی شکل میں اس طرح نظر آئے کہ پورا افق بھرا ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہیٰ کے قریب دیکھا۔ آئندہ آیات میں اسی مشاہدے کا ذکر ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب حضور ﷺ کو سفر معراج پر لے جانے کے لیے آئے تو وہ انسانی شکل میں تھے اور آپ علیہ السلام کے لیے جو سواری براق وہ لے کر آئے تھے وہ بھی کوئی محسوس و مرئی قسم کی مخلوق تھی۔ لیکن جب آپ ﷺ ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام اصل ملکوتی شکل میں ظاہر ہوئے۔ اس مقام پر انہوں نے آگے جانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہاں سے آگے بڑھوں گا تو میرے َپر جل جائیں گے : ؎اگر یک سر ِموئے برتر قدم فروغِ تجلی بسوزد پرم اس مضمون کے حوالے سے یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اصل ملکوتی شکل میں حضور ﷺ سے ملاقات کرانے اور پھر اس ملاقات کا قرآن مجید میں ذکر کرنے کا مقصد نزول وحی کے سلسلے کے درمیانی رابطے link کی سند فراہم کرنا ہے۔ اس نکتہ لطیف کو ” اصولِ حدیث “ کے حوالے سے سمجھنا چاہیے۔ محدثین نے احادیث کی صحت authenticity کی تحقیق کے لیے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ جس شخص کی کسی دوسری شخصیت سے روایت منقول ہے اس کی اس شخصیت سے شعور کی عمر اور شعور کی کیفیت میں ملاقات بھی ثابت ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسی ملاقات ثابت نہ ہو سکے تو متعلقہ راوی کی روایت قابل قبول نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً اگر ایک تابعی رح رح کی کسی صحابی رض سے کوئی روایت منقول ہے مگر حقائق ثابت کرتے ہیں کہ جب وہ صحابی رض فوت ہوئے تو متعلقہ تابعی کی عمر صرف چھ سال تھی ‘ یعنی اس وقت ان کی عمر ایسی نہ تھی کہ وہ بات کو سمجھ کر کسی دوسرے کو بتاسکتے ‘ تو ایسی صورت میں متعلقہ تابعی کی وہ روایت محدثین کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ چناچہ حدیث رسول ﷺ کی صحت authenticity کے لیے اگر متعلقہ راویوں کی ملاقات کا ثابت ہونا ضروری ہے تو ایسا ہی ثبوت اللہ تعالیٰ کی حدیث اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سورة الزمر کی آیت 23 میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ قراردیا ہے کی روایت کے حوالے سے بھی دستیاب ہونا چاہیے۔ -۔ چناچہ قرآن مجید کی روایت کی تصدیق و توثیق یوں ہوگی : قرآن کیا ہے ؟ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ سے اس کا کلام کس نے سنا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے سنا۔ جبرائیل علیہ السلام سے کس نے سنا ؟ جبرائیل علیہ السلام سے محمد ﷺ نے سنا۔ تو کیا جبرائیل علیہ السلام اور محمد ﷺ کی ملاقات ثابت ہے ؟ جی ہاں ! ان کے درمیان دو مرتبہ کی ملاقات قرآن سے ثابت ہے۔ -۔ چناچہ وحی کی ” روایت “ کا درمیانی رابطہ link ثابت کرنے کے لیے حضور ﷺ کی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اصل ملکوتی شکل میں ملاقات کی ” سند “ انتہائی اہم ہے جو یہ آیات فراہم کر رہی ہیں۔
Surah Najm Ayat 4 meaning in urdu
یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ) قرآن عربی (ہے) جس میں کوئی عیب (اور اختلاف) نہیں تاکہ وہ ڈر مانیں
- خدا نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو اور ڈرنا مت۔ ہم اس کو ابھی اس
- اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی
- تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
- اور اگر تم خدا کے رستے میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو جو (مال و
- اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ
- اور (اے کفر کرنے والوں) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی تو
- اور یہ خدا کے لیے ایسی چیزیں تجویز کرتے ہیں جن کو خود ناپسند کرتے
- اور آسمانوں اور زمین میں کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر (وہ) کتاب روشن میں
- مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی
Quran surahs in English :
Download surah Najm with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Najm mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Najm Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers