Surah Balad Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ﴾
[ البلد: 4]
کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے
Surah Balad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اس کی زندگی محنت ومشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے، جب جواب قسم ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مکہ مکرمہ کی قسم :اللہ تبارک وتعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں لا سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہوگا اور اس میں جو ملے وہ حلال ہوگا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہکاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرف ایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے ایک روایت میں ہے کہ اگر یہاں کے جنگ وجدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ ماولد میں مانافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بےاولاد ہے یعنی عیادلدار اور بانجھ ما کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم، باپ سے مراد حضرت آدم اور اولاد سے مراد کل انسان، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی حضرت آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی ابو عمران فرماتے ہیں مراد حضرت ابراہیم اور آپ کی اولاد ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والاٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے جیسے فرمایا الذی خلقک فسوک الخ یعنی اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی اور جگہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ حضرت مجاد فرماتے ہیں پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں برداشت کی بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف حضرت قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں حضرت آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا ؟ یقینا اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے پھر فرماتا ہے کہ میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرد کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ؟ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں ؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی ؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے ؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی ابن عساکر میں ہے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بیحد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنادیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کرلے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کرلے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے ایے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر فرمایا کہ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے ؟ یہ حدیث بہت ضعیف ہے یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے دونوں دودھ ہیں اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ الخ یعنی ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گذار ہے یا ناشکرا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔ “ سورة الإنشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ۔ } ” اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے “۔ انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کو فت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کے لیے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں !بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الإنشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ” ملاقات “ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ” دنیا “ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔ چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا : { وَیَصْلٰی سَعِیْرًا۔ } الانشقاق اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ : اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟
Surah Balad Ayat 4 meaning in urdu
درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جن لوگوں نے خدا کے حکم کو قبول کیا ان کی حالت بہت بہتر ہوگی۔
- اور کہتے ہیں کہ یہ (پیغمبر) اپنے پروردگار کی طرف سے ہمارے پاس کوئی نشانی
- اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کئے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی
- اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو
- مگر اس کو جو جہنم میں جانے والا ہے
- پھر چاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہٴ
- جو ان پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے
- کہنے لگے ہائے شامت بےشک ہم ظالم تھے
- یہ اس لئے کہ ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ
- یہ (دنیا میں) تھوڑا سا ہنس لیں اور (آخرت میں) ان کو ان اعمال کے
Quran surahs in English :
Download surah Balad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Balad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Balad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers