Surah Tahreem Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ﴾
[ التحريم: 4]
اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں
Surah Tahreem Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یا تمہاری توبہ قبول کر لی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے۔
( 2 ) یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کے لئے ناگوار تھی ( فتح القدیر )۔
( 3 ) یعنی نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں ( ا ) بعض تو کہتے ہیں یہ حضرت ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں حضور ﷺ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم کے ساتھ آپ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے گھر میں اور میرے بستر پر ؟ چناچہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کہ حلال آپ پر حرام کیسے ہوجائے گا ؟ تو آپ نے قسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا۔ اس پر یہ آیت اتری، حضرت زید فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے، حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں پس حرام کرنے کے باپ میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا، ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں ؟ فرمایا عائشہ اور حفصہ اور ابتدا قصہ ام ابراہیم قطبیہ کے بارے میں ہوئی۔ حضرت حفضہ کے گھر میں ان کی باری والے دن حضور ﷺ ان سے ملے تھے۔ جس پر حضرت حفضہ کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر ؟ حضور نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لئے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا اللہ نے اس کی اطلاعق اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں، آپ نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے، اسی واقعہ کو دلیل بنا کر حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہئے، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ پر حرام نہیں، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ غلام آزاد کرنا ہے۔ امام احمد اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی، لونڈی یا کسی کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہوجائے گی، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہوجائے گی۔ ( 2 ) ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے باب میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس آنحضرت ﷺ کو ہبہ کیا تھا، لیکن یہ غریب ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ کے شہد حرام کرلینے پر تھا۔ ( 3 ) صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ حضرت زینب بنت بخش ؓ کے گھر رسول اللہ ﷺ شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر حضرت عائشہ حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضور ﷺ آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہ کہ آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہوگا چناچہ ہم نے یہی کیا آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہو کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت، امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان والندوہ میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہیں ؓ اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے، کتاب الطلاق میں امام صاحب ؒ اس حدیث کو لائے ہیں۔ پھر فرمایا ہے مغافیر گوندے کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے۔ صحیح خباری شریف کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضور ﷺ کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ایک مرتبہ آپ حضرت حفضہ کے گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کے انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے، انہوں نے حضور ﷺ کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا میں نے کہا خیر اس کسی حیلے سے ٹال دوں گی چناچہ میں نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تمہارے پاس جب حضور ﷺ آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے آپ فرمائیں گے نہیں تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے ؟ آپ فرمائیں گے مجھے حفضہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہوگا، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کنا، حضرت سودہ فرماتی ہیں جب حضور ﷺ میرے گھر آئے ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا میں آپ سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ میرے پاس آئے میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کردیا، پھر حضرت ﷺ میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا پھر حضرت صفیہ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا پھر جب حضرت حفضہ کے پاس گئے تو حضرت حفضہ نے شہد کا شربت پلانا چاہا آپ نے فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں، حضرت سودہ فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو، صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ نبی ﷺ کو بدبو سے سخت نفرت تھی اسی لئے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے، جب آپ نے جواب دیا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہوگا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہوگی، اس روایت میں لفظ جرست ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی جو راس کہتے ہیں اور جرس مد ہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں، عرب کہتے ہیں جبکہ پرنددانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو، ایک حدیث میں ہے پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے، یہاں بھی عربی میں لفظ جرس ہے، اصمعی کہتے ہیں میں حضرت شعبہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ جرس کو جرش بڑی شین کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے سین سے ہے حضرت شعبہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کرلو، الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک حضرت حفضہ کا دوسرا حضرت زینب کا بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت حفضہ کا نام ہے پس ممکن ہے یہ وہ واقعہ ہوں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم، آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ حضرت عمر سے حضور ﷺ کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت ان تتوبا الخ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں حضرت عمر راستہ چھوڑ جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لئے ہوئے پیچھے پیچھے گیا آپ حاجت ضروری سے فارغی ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المومنین جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابن عباس افسوس، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لئے جواب دیا اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ہیں ؓ پھر حضرت عمر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں حضرت امیہ بن زید کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے ؟ یہ نئی بات کیسی ؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں ؟ اللہ کی قسم آنحضرت ﷺ کی بیواں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑگیا سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم حضور ﷺ کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو ؟ جواب ملا کہ سچ ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا۔ کیا تم اس سے غافل ہوگئیں کہ رسول اللہ ﷺ کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہوجائے اور وہ کہیں کی نہ رہے ؟ خبردار آئندہ سے حضور ﷺ کو کوئی جواب نہ دینا نہ آپ سے کچھ طلب کرنا جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو، حضرت عائشہ کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ ﷺ کی منظور نظر ہیں۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کرلی تھیں ایک دن میں حضور ﷺ کی خدمت میں گذارتا اور ایک دن وہ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے عشاء کے وقت آگئے اور میرا دروازہ کھڑ کھڑا کر مجھے آوازیں دینے لگے میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خریت تو ہے ؟ اس نے کہا آج تو بڑا بھاری کام ہوگیا میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آپہنچا ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہا رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا افسوس حفصہ برباد ہوگئی اور اس نے نقصان اٹھایا مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفضہ کے پاس گیا دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں، آپ ہم سے الگ ہو کر اپنے اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے میں نے کہا جاؤ میرے لئے اجازت طلب کرو وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا حضور ﷺ نے کچھ جواب نہیں دیا میں وہاں سے واپس چلا آیا مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لئے اجازت طلبب کرو اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی میں گیا دیکھا کہ حضور ﷺ ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں، میں نے کہا اللہ اکبر ! یا رسول اللہ کہ بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کردی، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ اور میرا یہ خبر پا کر کہ حضور ﷺ کی بیوایں بھی ایسا کرتی ہیں یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائیں بیان کیا اس پر حضور ﷺ مسکرا دیئے۔ میں نے پھر اپنا حفصہ کے پاس جانا اور انہیں حضرت عائشہ کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے میں نے کہا اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں ؟ آپ نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کی بیٹھک ( دربار خاص ) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے ؟ یہ سنتے ہی آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں میں نے کہا حضور ﷺ میرے لئے اللہ سے طلب بخشش کیجئے، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گذر گیا کہ موقعہ ملے تو حضرت عمر سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گذر چکی، صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اس میں یہ بھی ہے حضرت عمر جس طرح حضرت حفضہ کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح حضرت عائشہ کے پاس بھی ہو آئے تھے، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے حضرت رباح تھا ؓ یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے حضور ﷺ سے کہا آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں ؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے، جبرائیل، میکائیل اور میں اور ابوبکر اور جملہ مومن ہیں، حضرت عمر فرماتے ہیں الحمد اللہ میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخبیر یعنی ( عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا ) 66۔ التحريم:5) اور ( وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ ) 66۔ التحريم:4) ، آپ پر نازل ہوئیں، مجھے جب آپ سے معلوم ہوا کہا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی، اسی کے بارے میں آیت الخ آخر تک اتری یعنی جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول ﷺ یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے۔ حضرت عمر یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہی ہوں اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر حضرت عمر ہیں، بعض نے حضرت عثمان کا نام بھی لیا ہے بعض نے حضرت علی کا۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف حضرت علی کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ کی بیویاں غیرت میں آگئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور ﷺ تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دے گا پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری، پہلے یہ بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عمر ﷺ نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں بدری قیدیوں کے بارے میں مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المومنین کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدم تمہیں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المومنین کے پاس ہپنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ ﷺ خود نصیحت کرنے کے لئے کم ہیں جو تم آگئے ؟ اس پر میں خاموش ہوگیا لیکن قرآن میں آیت عسی ربہ الخ، نازل ہوئی، صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ تھیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو بات حضور ﷺ نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت حفضہ کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور حضرت ماریہ سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا تم ( حضرت ) عائشہ کو خبر نہ کرنا میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ( حضرت ) ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے۔ حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ کو خبر کردی پس حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی ؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم وخبیر اللہ نے خبر پہنچائی، صدیقہ نے کہا میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک کہا آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کرلیں آپ نے حرام کرلی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 66۔ التحريم:1) ، نازل ہوئی ( طبرانی ) لیکن اس کی سند مخدوش ہے، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسی ظاہر ہوگئی۔ ترجمہ کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے سائحات کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورة برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گذر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لئے جی خوش رہے، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے، معجم طبرانی میں ابن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو حضرت آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد حضرت مریم ہیں جو حضرت عمران کی بیٹی تھیں، ابن عساکر میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ آپ کے پاس آئیں تو حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے نہ تکلیف ہے نہ شورو غل جو چھدے ہوئی موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے مکانات ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے خدیجہ اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، حضرت ابو امامہ سے ابو یعلی میں مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کردیا ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4{ اِنْ تَـتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا } ” اگر تم دونوں اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ‘ کیونکہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں۔ “ اس آیت کی تعبیر میں اہل تشیع کا نقطہ نظر یقینا انتہا پسندانہ ہے ‘ لیکن مقام حیرت ہے کہ ہمارے بعض مترجمین اور مفسرین نے بھی انہی کی روش اختیار کی ہے۔ البتہ مولانا حمید الدین فراہی رح نے عربی اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کی جو وضاحت کی ہے میری رائے میں وہ بہت جامع اور بالکل درست ہے۔ اس حوالے سے میں ذاتی طور پر خود کو مولانا صاحب کا احسان مند مانتا ہوں کہ ان کی اس تحریر کی بدولت مجھے قرآن کے اس مقام کا درست فہم اور شعور نصیب ہوا۔ اہل تشیع کے ہاں { فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا } کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔ دراصل صََغَتْ ایسا لفظ ہے جس میں منفی اور مثبت دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ جیسے مَالَ اِلٰی کے معنی ہیں کسی طرف میلان یا توجہ ہونا جبکہ مَالَ عَنْ کے معنی ہیں کسی سے نفرت ہوجانا۔ اسی طرح لفظ رَغِبَ اِلٰی راغب ہونا ‘ محبت کرنا اور رَغِبَ عَنْ ناپسند کرنا کے معنی دیتا ہے۔ صَغٰی کا معنی ہے جھک جانا ‘ مائل ہوجانا۔ جب ستارے ڈوبنے لگتے ہیں تو عرب کہتے ہیں : صَغَتِ النُّجُوم۔ چناچہ یہاں اس لفظ کا درست مفہوم مائل ہوجانا ہی ہے کہ اب تمہارے دل میں تو یہ بات آ ہی چکی ہے اور تمہارے دل تو خطا کو تسلیم کر ہی چکے ہیں ‘ بس اب تم زبان سے بھی اس کا اعتراف کرلو۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خطا کا احساس ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اعتراف اور توبہ کے الفاظ بھی سکھا دیے : { فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَـیْہِط } البقرۃ : 37 اور آپ علیہ السلام نے سکھائے ہوئے طریقے سے توبہ کرلی۔ اس بارے میں عام رائے یہ ہے کہ مذکورہ بات حضرت حفصہ رض نے حضرت عائشہ رض کو بتائی تھی۔ چونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رض کو دربارِ رسالت میں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل تھا اسی نسبت سے حضرت عائشہ رض اور حضرت حفصہ رض بھی ازواجِ مطہرات رض میں ممتاز تھیں۔ { وَاِنْ تَظٰھَرَا عَلَیْہِ } ” اور اگر تم دونوں نے ان کے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا ہے “ یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ قرآن مجید کے ایسے مقامات کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر یہ اصول ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ ‘ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اور یہ بھی کہ جن کے مراتب جتنے بلند ہوں ان کا ہلکا سا سہو بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوجاتا ہے۔ جیسے عربی کا مقولہ ہے : حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن یعنی عام لوگوں کے لیے جو کام بڑی نیکی کا سمجھا جائے گا ہوسکتا ہے کہ وہی کام اللہ تعالیٰ کے مقربین اولیاء اور محبوب بندوں کے لیے تقصیر قرار پائے اور ان کے مرتبہ کے اعتبار سے قابل ِگرفت شمار ہوجائے۔ اسی قاعدہ اور اصول کے تحت یہاں یہ سخت الفاظ آئے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمارے رسول ﷺ کے خلاف کوئی متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو سن لو : { فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــٹہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ۔ } ” ان ﷺ کا پشت پناہ تو خود اللہ ہے اور جبریل اور تمام صالح مومنین ‘ اور مزید برآں تمام فرشتے بھی ان ﷺ کے مددگار ہیں۔ “ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ تم لوگ ہمارے رسول ﷺ کے ساتھ جو بھی معاملہ کرو ان کے مقام و مرتبے کی مناسبت سے کیا کرو۔ تمہارا میاں بیوی کا رشتہ اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور تم سب لوگ امتی ہو۔ تمہارا ان ﷺ کے ساتھ بنیادی تعلق یہی ہے۔ اس تعلق کے مقابلے میں تمہارے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کے بعد آگے مزید سخت الفاظ آ رہے ہیں :
إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل وصالح المؤمنين والملائكة بعد ذلك ظهير
سورة: التحريم - آية: ( 4 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 560 )Surah Tahreem Ayat 4 meaning in urdu
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟
- اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں تو (خوش ہو کر) کہتا
- وہ ان پر ناگہاں آ واقع ہوگا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی
- پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔
- (جب) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے کے) لئے
- اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو
- پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا تو اسی
- (اہل) سبا کے لئے ان کے مقام بودوباش میں ایک نشانی تھی (یعنی) دو باغ
- ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا
- اور ہم نے ان کو ایسے مقدور دیئے تھے جو تم لوگوں کو نہیں دیئے
Quran surahs in English :
Download surah Tahreem with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Tahreem mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Tahreem Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers