Surah Hud Ayat 40 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ﴾
[ هود: 40]
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی) دو (دو جانور۔ ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے (کہ ہلاک ہوجائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے
Surah Hud Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس سے بعض نے روٹی پکانے والے تنور، بعض نے مخصوص جگہیں مثلا عین الوردہ اور بعض نے سطح زمین مراد لی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی آخری مفہوم کو ترجیح دی ہے یعنی ساری زمین ہی چشموں کی طرح ابل پڑی، اوپر سے آسمان کی بارش نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
( 2 ) اس سے مراد مذکر اور مؤنث یعنی نر مادہ ہے اس طرح ہر ذی روح مخلوق کا جوڑا کشتی میں رکھ لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ نباتات بھی رکھے گئے تھے۔ وللہ اعلم۔
( 3 ) یعنی جن کا غرق ہونا تقدیر الٰہی میں ثبت ہے اس سے مراد عام کفار ہیں، یا یہ استشناء ” أَهْلَكَ “ سے ہے یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرا لے، سوائے ان کے جن پر اللہ کی بات سبقت کر گئی ہے یعنی ایک بیٹا ( کنعان یا۔ یام ) اور حضرت نوح ( عليه السلام ) کی اہلیہ ( وَاعِلَة ) یہ دونوں کافر تھے، ان کو کشتی میں بیٹھنے والوں سے مستشنٰی کر دیا گیا۔
( 4 ) یعنی سب اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرا لے۔
( 5 ) بعض نے ان کی کل تعداد ( مرد اور عورت ملا کر ) ٨٠ اور بعض نے اس سے بھی کم بتلائی ہے۔ ان میں حضرت نوح ( عليه السلام ) کے تین بیٹے، جو ایمان والوں میں شامل تھے، سام، حام، یافت اور ان کی بیویاں اور چوتھی بیوی، یام کی تھی، جو کافر تھا، لیکن اس کی بیوی مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار تھی۔ ( ابن کثیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول حسب فرمان ربی آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور حضرت نوح کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کردیا۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا۔ تنور کے ابلنے سے بقول ابن عباس یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے۔ مجاہد اور شعبی کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا۔ ابن عباس سے مروی ہے ہند میں ایک نہر ہے۔ قتادہ کہتے ہیں جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے عین الوردہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح ؑ کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرلو۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا۔ جیسا نباتات۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہونے لگا۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آگئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا۔ حضرت نوح جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے۔ آخر آپ نے فرمایا آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہوگیا، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کرلیا۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت نوح ؑ نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کرلیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے۔ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا۔ آپ کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہوگیا۔ یا آپ کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول کی منکر تھی اور تیری قوم کے تمام مسمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے اب عباس فرماتے ہیں کل اسی ( 80 ) آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں کعب ؒ فرماتے ہیں سب بہتر ( 72 ) اشخاص تھے۔ ایک قول ہے صرف دس ( 10 ) آدمی تھے ایک قول ہے حضرت نوح تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام، حام، یافث اور چار عورتیں تھیں۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود حضرت نوح کی بیوی۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے حضرت نوح کی بیوی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوئی۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط ؑ کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی۔ واللہ اعلم واحکم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 40 حَتّٰیٓ اِذَاجَآءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ مشرق وسطیٰ کے اس پورے علاقے میں ایک بہت بڑے سیلاب کے واضح آثار بھی ملتے ہیں ‘ اس بارے میں تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں اور آج کا علم طبقات الارض Geology بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ H.G.Wells نے اس سیلاب کی تاویل یوں کی ہے کہ یہ علاقہ بحیرۂ روم Mediterranean کی سطح سے بہت نیچا تھا ‘ مگر سمندر کے مشرقی ساحل یعنی شام اور فلسطین کے ساتھ ساتھ موجود پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے سمندر کا پانی خشکی کی طرف نہیں آسکتا تھا۔ جیسے کراچی کے بعض علاقوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سطح سمندر سے بہت نیچے ہیں مگر ساحلی علاقہ کی سطح چونکہ بلند ہے اس لیے سمندر کا پانی اس طرف نہیں آسکتا۔ H.G.Wells کا خیال ہے کہ اس علاقے میں سمندر سے کسی وجہ سے پانی کے لیے کوئی راستہ بن گیا ہوگا جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق اس سیلاب کا آغاز ایک خاص تنور سے ہوا تھا جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس کے ساتھ ہی آسمان سے غیر معمولی انداز میں لگاتار بارشیں ہوئیں اور زمین نے بھی اپنے چشموں کے دہانے کھول دیے۔ پھر آسمان اور زمین کے یہ دونوں پانی مل کر عظیم سیلاب کی صورت اختیار کر گئے۔ سورة القمر میں اس کی تفصیل بایں الفاظ بیان کی گئی ہے :فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْہَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَآٰی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ” پس ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے جن سے لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ پڑے اور یہ دونوں طرح کے پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کردیا گیا تھا۔ “قُلْنَا احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَہْلَکَ الاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ ” یہ استثنائی حکم حضرت نوح علیہ السلام کی ایک بیوی اور آپ کے بیٹے ”یام “ کنعان کے بارے میں تھا ‘ جو اسی بیوی سے تھا ‘ جبکہ آپ کے تین بیٹے حام ‘ سام اور یافث ایمان لا چکے تھے اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ حضرت سام اور ان کی اولاد بعد میں اسی علاقے میں آباد ہوئی تھی۔ چناچہ قوم عاد ‘ قوم ثمود اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سامئ النسل تھے۔ حام اور یافث دوسرے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی نسل بھی آگے چلی۔ وَمَنْ اٰمَنَط وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٓٗ الاَّ قَلِیْلٌیہاں پر لفظ قلیل انگریزی محاورہ " the little" کے ہم معنی ہے ‘ یعنی بہت ہی تھوڑے ‘ نہ ہونے کے برابر۔
حتى إذا جاء أمرنا وفار التنور قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين وأهلك إلا من سبق عليه القول ومن آمن وما آمن معه إلا قليل
سورة: هود - آية: ( 40 ) - جزء: ( 12 ) - صفحة: ( 226 )Surah Hud Ayat 40 meaning in urdu
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا "ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں" اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور موسی یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے
- (جنہوں نے) یہ (کہا) کہ خدا کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کردو
- کچھ شک نہیں کہ اس میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے مگر یہ اکثر ایمان
- اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو۔ اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا
- تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا ہے
- کیا ان کے لئے یہ سند نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس (بات) کو
- فرمایا کہ تجھے مہلت دی جاتی ہے
- لوگو! خدا کے پیغمبر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق بات لے کر
- (القصہ یوں ہی ہوا) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے (اور) کہنے لگے کہ ہم
- خدا نے اس کو سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا تو
Quran surahs in English :
Download surah Hud with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hud mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hud Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers