Surah naba Ayat 40 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا﴾
[ النبأ: 40]
ہم نے تم کو عذاب سے جو عنقریب آنے والا ہے آگاہ کر دیا ہے جس دن ہر شخص ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا
Surah naba Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی قیامت والے دن کے عذاب سے جو قریب ہی ہے۔ کیوں کہ اس کا آنا یقینی ہے اور ہر آنے والے چیز قریب ہی ہے، کیونکہ بہر صورت اسے آکر ہی رہنا ہے۔
( 2 ) یعنی اچھا یا برا، جو عمل بھی اس نے دنیا میں کیا وہ اللہ کے ہاں پہنچ گیا ہے، قیامت والے دن وہ اس کے سامنے آجائے گا اور اس کا مشاہدہ کر لے گا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ( الكهف ،49 ) يُنَبَّأُ الإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( القيامة ،13 ) ۔
( 3 ) یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ حیوانات کے درمیان بھی عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ کے جانور پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہو جاو۔ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے۔ اس وقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے۔ ( تفسیر ابن کثیر ) ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
روح الامین ؑ اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے، وہ رحمان ہے، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ02505 ) 2۔ البقرة :255) یعنی کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان، یا مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں، حضرت جبرائیل کو اور جگہ بھی روح کہا گیا ہے، ارشاد ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ01903ۙ ) 26۔ الشعراء:193) ، اسے امانت دار روح نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے، یہاں مراد سے یقینا حضرت جبرائیل ہیں حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں سے بزرگ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں، یا مراد روح سے قرآن ہے، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 52ۙ ) 42۔ الشوری :52) یعنی ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری یہاں روح سے مراد قرآن ہے، چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے، تمام آسمانوں کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے، طبرانی میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ کہ فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول ﷺ ہونے میں بھی کلام ہے، ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہو، اور بھی بنی اسرائیل سے لیا ہوا، واللہ اعلم۔ امام ابن جریر نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد کل انسان ہیں واللہ اعلم پھر فرمایا صرف وہی اس دن بات کرسکے گا جسے وہ رحمٰن اجازت دے جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ01005 ) 11۔ ھود :105) یعنی جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کرسکے گا صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کرسکے گا، پھر فرمایا کہ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو، سب سے زیادہ حق بات لا الہ الا اللہ ہے، پھر فرمایا کہ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کردیا ہے، آنے والی چیز تو آگئی ہوئی سمجھنی چاہئے، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے جیسے فرمایا آیت ( ووجدوا ما عملوا حاضرا جو کیا اسے سامنے پالیں گے اور جگہ ہے آیت (يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75۔ القیامة :13) ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا، اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصب ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا، دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہوگا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہوگا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہوجاؤ چناچہ وہ مٹی ہوجائیں گے، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا حضور کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی یہی مروی ہے، الحمد اللہ سورة نباء کی تفسیم ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 40{ اِنَّآ اَنْذَرْنٰـکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًاج } ” دیکھو ! ہم نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے اس عذاب سے جو بالکل قریب ہے۔ “ تصور کیجیے ‘ یہ عذاب انسان کے کتنا قریب ہے ! ادھر انسان کی آنکھ بند ہوتی ہے ‘ ادھر اسے قبر میں اتارنے کا بندوبست کردیا جاتا ہے۔ اور قبر کیا ہے ؟ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ 1 ” قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا “۔ گویا ہر زندہ انسان اس باغیچے یا گڑھے سے صرف چند گھنٹوں کے فاصلے پر بیٹھا ہے۔ { یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰٹہُ } ” جس دن انسان دیکھ لے گا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا “ { وَیَـقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا۔ } ” اور کافر کہے گا : کاش کہ میں مٹی ہوتا ! “ کاش مجھے شرفِ انسانیت ملا ہی نہ ہوتا ! ” مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے ! “ کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا ! 2
إنا أنذرناكم عذابا قريبا يوم ينظر المرء ما قدمت يداه ويقول الكافر ياليتني كنت ترابا
سورة: النبأ - آية: ( 40 ) - جزء: ( 30 ) - صفحة: ( 583 )Surah naba Ayat 40 meaning in urdu
ہم نے تم لوگوں کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آ لگا ہے جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے
- اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا
- کہا وہ میرے پیچھے (آ رہے) ہیں اور اے پروردگار میں نے تیری طرف (آنے
- اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا
- اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ
- یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس
- اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا اور اسی نے تمہاری صورتیں
- اور یہ کہ (اے محمد سب سے) یکسو ہو کر دین (اسلام) کی پیروی کئے
- کھڑکھڑانے والی (جس) کو ثمود اور عاد (دونوں) نے جھٹلایا
- اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
Quran surahs in English :
Download surah naba with the voice of the most famous Quran reciters :
surah naba mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter naba Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers